خلافت، ملوکیت اور ریاست تحریر جواد یوسف زئی

0
37

حضورؐ خدا کے نبی تھے اور وہ انسانی معاشرے کی اصلاح کے لیے مبعوث ہوئے۔ وہ رسولوں کے ایک طویل سلسلے کی آخری کڑی تھے۔ آپؐ نے ضمنی طور پر معاشرے کے سیاسی امور کو نمٹایا اور ان کے بارے میں ہدایات بھی دیں۔ تاہم آپ بطور حکمراں زیادہ تر وحی پر انحصار کرتے تھے۔ آپؐ کی بعثت کے وقت جزیرہ نمائے عرب اپنی تاریخ کے اہم موڑ پر تھا۔ ہزاروں سال کم آبادی اور بدویت کی حالت میں رہنے کے بعد یہاں دو شہری آبادیاں، مکہ اور یثرب بن چکی تھیں۔ شہری آبادیوں کے انتظام کے لیے باقاعدہ ریاستی ڈھانچے کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔ روایت ہے کہ یثرب میں ایک شخص عبد اللہ ابن اُبی کو بادشاہ بنانے کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ ادھر مکہ میں قریش کی قبائلی بادشاہت قائم ہونے کے امکانات پیدا ہورہے تھے۔ یہی حالات تھے جن میں سرکردہ لوگوں نے اسلام کے پیعام کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھا۔
بہر حال حضورؐ کے ہاتھوں جزیرہ نمائے عرب کی پہلی ریاست کا قیام عمل یں آیا۔ یہ ریاست اپنے ظاہری خد و خال کے لحاظ سے قبائلی تھی۔ اس کی قیادت ایک قبلیے قریش کے ہاتھ میں رہی۔ حضورؐ کے فرمان "الائمۃ من القریش” کا مفہوم یہی تھا۔ لیکن ریاست کی روح آئینی تھی۔ یعنی اس کا قیام کسی فرد یا قبیلے کی شان و شوکت میں اضافے کے لیے نہیں بلکہ اسلام کے اصولوں کی سربلندی کے لیے تھا۔ آپؐ کی وفات کے بعد قبائلی مشورے سے ریاست کے نظام کو انہی خطوط پر برقرار رکھنے کا فیصلہ ہوا۔ اس کا ظاہری ڈھانچہ قبائلی رہا اور روح آئینی۔ خلافت راشدہ کے ابتدائی سالوں کے دوران فتوحات کے سبب ریاست کی وسعت تیزی سے بڑھی اور یہ ایک عظیم سلطنت بن گئی جس میں سینکڑوں تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد تھے۔ اتنی بڑی سلطنت کا انتظام قبائلی شوریٰ کے ذریعے کرنے میں دشواریاں پیش آنے لگیں۔ حضرت عمرؓ کی طاقتور شخصیت نے حالات کو سنبھالے رکھا۔ لیکن ان کی وفات کے بعد مسائل نے سر اُٹھانا شروع کیا۔ ان کا نتیجہ بالاخر حضرت عثمانؓ کی شہادت کی صورت میں نکلا۔
حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد قریش کی قبائلی ریاست رفتہ رفتہ شہنشاہیت کی طرف سرکنے لگی۔ یہ پراسیس بالاخر حضرت علی کی شہادت تک پہنچ کر مکمل ہوا۔ بنو امیہ کی ریاست ایک مکمل شہنشاہیت تھی۔ مملکت کے قبائلی نظام سے شہنشاہیت میں تبدیلی کے ساتھ مشاورت کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ اور ساتھ ریاست کی ائینی حیثیت کا بھی۔ جب سارا قتدار ایک فرد واحد کے ہاتھ میں آگیا تو اسے کسی کے مشورے یا قوانین کی پابندی کی ضرورت نہیں رہی۔ اب اس کی مرضی کا نام قانون تھا۔ اُس زمانے میں دنیا میں ریاست کی یہی دو شکلیں یعنی قبائلی بادشاہت اور شہنشاہیت مروج تھیں۔ جمہوریت کے تجربے قدیم یونان کی شہری ریاستوں میں ہوئے تھے لیکن وہ زیادہ کامیاب نہیں رہے۔ چنانچہ اسلام نے جو ریاست قائم کی اس کی ظاہری شکل و صورت بھی انہی دو شکلوں تک محدود رہی۔ جدید دور میں جب قومی ریاستوں اور جمہوری طرز حکومت کا رواج ہوا تو مسلم ریاستوں نے اس کو بھی ازما کر دیکھا۔ اس کی مثالیں پاکستان اور دیگر مسلم ملکوں کی ہے۔ یعنی اسلامی ریاست قبائلی بادشاہت، شہنشاہیت یا قومی ریاست میں سے کسی بھی شکل میں ہوسکتی ہے۔
اب رہا یہ سوال کہ بنو امیہ اور بنو عباس کی شہنشاہیت نیز پاکستان کی قومی ریاست کتنی اسلامی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ریاست انسانوں کا بنایا ہوا ایک ادارہ ہوتا ہے۔ یہ ہمیشہ ناقص ہوتی ہے یعنی اپنے آئیڈیل کے ہو بہو مطابق نہیں۔ یاد رہے کہ خلافت راشدہ کا آخری دور شروع کے دور سے کافی مختلف تھا۔
یہ انسانی تاریخ کے مسائل ہیں۔ ان پر علم تاریخ اور بشریات کے اصولوں کے تحت بحث مباحثہ ہوسکتا ہے۔ اس پر سائینسی طریقہ کار کے تحت تحقیق ہوسکتی ہے۔ یہ اعتقادی معاملہ ہر گز نہیں، جیتے جاگتے انسانوں کی تاریخ ہے۔ اس کی طرف ہم اپنی انکھیں بند بھی کرلیں تو دوسرے لوگ تحیقیق کرتے رہیں گے۔
ہمارے سامنے معاشرتی آئڈیل ہونے چاہیں اور ہمِیں ان کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آئیڈیل کبھی نکمل طور پر حاصل نہیں ہوتا۔

یہ سارا پراسیس کسی سازش (اندرونی یا بیرونی) سے زیادہ تاریخی ارتقا کا نتیجہ تھا۔ انسانی تاریخ میں جہاں کہیں ریاست قائم ہوئی ہے، اسی طریقے سے ہوئی ہے۔ یعنی ایک قبیلہ طاقت پکڑتا ہے تو اردگرد کے قبیلوں پر اپنا اقتدار قائم کرلیتا ہے۔ اس طرح قبائلی بادشاہت وجود میں اتی ہے۔ قبائلی بادشاہ مطلق العنان نہیں بلکہ قبائلی سرداروں کے مشورے کا پابند ہوتا ہے۔ لیکن جب مزید فتوحات کی وجہ سے بادشاہت کی حدود بہت بڑھ جاتی ہیں تو ایک قبیلے کے ذریعے اسے سنبھالنا ممکن نہیں ہوتا۔ اُس وقت شہنشاہیت وجود میں آجاتی ہے۔
ٹوئیٹر : Jawad_Yusufzai@
ای میل : TheMJawadKhan@Gmail.com

Leave a reply