افغانیوں پر رحم فرمائیں تحریر: محمد عتیق گورائیہ

خبروں کے مطابق افغانستان کے تین بڑے شہروں میں طالبان کے شدید حملے جاری ہیں ۔ طالبان افغانستان کے تین بڑے شہروں ہرات، لشکر گاہ اور قندھار میں داخل ہوچکے ہیں ۔ یوں سمجھ لیجیے کہ قندھار میں گزشتہ 20 سال کی بدترین لڑائی جاری ہے ۔ قندھار ائیرپورٹ پر 3 راکٹ حملے کیے گیے ان میں سے 2 رن وے پر گرے اور پھر فلائٹ آپریشن معطل کر دیا گیا۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ افغان فضائیہ قندھار ایئرپورٹ سے پرواز بھر کر فضائی حملے کر رہی تھی جس کے جواب میں ایئرپورٹ کو نشانہ بنایا۔ شہر ہرات کے 5 مقامات پر شدید لڑائی ہورہی ہے ۔ افغان کمانڈر کرنل عبدالحمید ہلاک ہوچکے ہیں اور افغان میڈیا کے مطابق طالبان ہرات کے جنوبی حصے میں داخل ہوچکے ہیں ۔ طالبان نے کمانڈر اسماعیل خان کے محل اور لوگر کے ضلع کنجک کا کنٹرول بھی سنبھال لیا ہے ،امریکی فضائیہ نے ہلمند میں طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کی۔طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ بم باری میں بھارتی طیارے استعمال ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب صوبے ہرات میں طالبان نے اکثریتی علاقے کا کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ جس کے بعد افغان فوج کے مزید تازہ دم دستے صوبے کی جانب روانہ کیے گئے ہیں جہاں طالبان اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ علاوہ ازیں صوبہ جوزجان میں طالبان کے ٹھکانوں پر جنگی طیاروں کے حملوں میں 21 عسکریت پسندوں کے ہلاک اور 10 کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے ۔ افغان فوج کے ترجمان محمد حنیف ریضائی نے بتایا ہے کہ مرغاب، حسن تابین، اتما اور جوزجان کو ہم سایہ صوبہ سرپل سے جوڑنے والی سڑکوں سے ملحقہ دیہات میں طالبان کے ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے ۔
امریکا افغانستان میں ایک ایسی آگ کا دہکتا الاؤ چھوڑ کر جارہا ہے جو شاید ہی کبھی بجھ پاے ۔ امریکا و دیگر طاقت ور ریاستیں اپنا آپ بچا کر نکل چکے ہیں جبکہ افغانستان کا سر درد پاکستان و دیگر ہم ساے ممالک کا بن چکا ہے ۔ 29 فروری 2020ء کو امریکا اور طالبان کے مابین پانے والے امن معاہدے پر عمل کو امریکا اپنی نگرانی میں یقینی بناسکتا تھا ۔ امریکا نے صرف معاملات طے کرنے پر اکتفا کرکے اپنی ذمہ داری کا پلو جاڑ لیا ۔ افغان حکومت نے پہلے تو امن مذاکرات اور پھر امن معاہدے کی مخالفت شروع کردی اور پھر اس امن معاہدے کو برباد کرنے کے درپے ہوگیا ۔ طالبان کی طرف سے افغان قیدی رہا کردئیے گئے اور افغان قیادت نے طالبان قیدی نہ چھوڑے اور طالبان کے خلاف کارروائیاں بھی جاری رکھیں ۔ امریکا اگر افغان زمین پر امن قائم کرنے میں سنجیدہ ہوتا تو اس وقت کوئی نہ کوئی سیٹ اپ بن جاتا ۔ امریکا کے انخلاء کے ساتھ ہی طالبان نے اپنے مقبوضہ جات میں اضافہ کرنا شروع کردیا۔ اس وقت صورت حال یہ بن چکی ہے کہ افغان قیادت ترلے منتوں پر اتر آئی ہے اور طالبان اپنی فتوحات کو بڑھا کر مزید دباؤ بڑھا رہے ہیں ۔افغان فوج کو اگرچہ امریکا کی حمایت حاصل ہے لیکن اس کے باوجود افغان فوج پڑوسی ممالک میں پناہ کے لیے بھاگ رہے ہیں ۔ اس وقت اگر طالبان کو کسی چیز کا خوف لاحق ہوتا ہے تو وہ افغان فضائیہ ہے جس کا سدباب بھی وہ کررہے ہیں۔ سازشی ٹولہ بھی اپنی جگہ بنانے کی کوشش میں مصروف عمل ہے ۔ افغان قیادت بھی امریکا کو ادھر رکھنے کی خاطر الٹے سیدھے کام کررہی ہے ۔ ہرات میں اقوام متحدہ کے دفتر پر حملہ کو اگر اسی تناظر میں دیکھا جاے تو سمجھ آجاتی ہے کیونکہ وہاں پر داعش و القاعدہ بھی موجود ہے اور افغان قیادت بھی سراسیمگی کے عالم میں ہاتھ پاؤں مار رہی ہے ۔ طالبان شاید پھر سے اپنی حکومت قائم کرنے میں کام یاب ہوجائیں گے اور اس بار امریکا و برطانیہ اور دیگر ممالک کی حمایت بھی مل سکتی ہے ۔ کیوں کہ امریکا و ناٹو نے دیکھ لیا ہے کہ افغانستان پر قابض ہونا ناممکن حد تک مشکل ہے ۔ طالبان کوشش میں ہیں کہ وہ عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر چلیں یہی وجہ ہے کہ وہ محتاط رویہ اپنا کر چل رہے ہیں ۔ افغانستان عرصہ دراز سے ظلم و بربریت کا شکار رہا ہے ۔ عالمی طاقتوں نے اسے خاک و خون میں نہلایا ہے ۔ اب وقت ہے کہ افغان حکومت طالبان کے ساتھ مل بیٹھ کر افغانیوں کو سکون کا سانس لینے دیں ۔ اپنے لوگوں کو خون میں نہلانا نہ تو دانش مندانہ اقدام ہے اور نہ ہی جرات مندانہ ۔ یاد رکھیے کہ اگر سارے افعانی مار دیئے گئے تو طالبان یا اشرف غنی حکومت کس پر کریں گے ؟

Leave a reply