شروع سے ہی انسان کی جبلت میں لڑنا قبضہ کرنا شامل ہے۔اپنے لوگوں کے لیے اپنے مذہب کے لیےاپنے جذبات کے لیےاپنے اندر پیدا ہونے والی نفرت کے لیے وہ دوسرے انسان پر حملہ کرتا ہے۔گروہوں میں لڑنے لگا تو جنگیں شروع ہو گئیں۔ اب تک بڑی بڑی عظیم جنگیں ہو چکی ہیں۔اب جو جدید دور آیااُس میں پانچ جنریشنز بنائی گئیں جو جنگ کی اقسام ہیں۔دو جنگیں جب بھی ہوئی ان کے درمیانی وقفے کو امن کہتے ہیں، اور یہ وقت انسانوں کو بہت کم نصیب ہوا۔کیوں کہ جب سے دنیا بنی ہے جنگیں ہوتی چلی آ رہی ہیں۔اربوں انسان اب تک اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، بے شمار انسانیت کا قتل ہو چکا ہے۔انسانوں نے ہی انسانوں کو قتل کیا ہے۔اس کیے کہتے ہیں کہ انسان ہی انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔
فرسٹ جنریشن وار 1648 میں شروع ہوتی ہے۔اس وقت یورپ کے عیسائی آپس میں لڑ رہے تھے۔ اس دور میں مذہبی رہنماؤں کےکنٹرول میں فوجیں ہوا کرتی تھیں۔ چرچ فیصلہ کرتا تھا کہ کدھر حملہ کرنا ہے اور کیسے جنگ لڑنی ہے۔ آج کل پاکستان میں ترقی ڈرامہ ارطغرل بہت شوق سے دیکھا جا رہا ہے اس میں بھی کافی حد تک چرچ سے فوج کو کنٹرول کیا گیا ہے۔تب بادشاہ کٹپتلی کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔1648 میں پہلی بار ایسا ہوا کہ مذہب کو انہوں نے جنگ سے الگ کر دیا۔فوجیں پھر ریاست اور ان کے حکمرانوں کے پاس چکی گئیں۔فوجیوں کو پہلی مرتبہ باقائدہ یونیفورم دیاگیا۔فوجی اور عام آدمی میں واضح فرق نظر آتا تھا۔ اس وقت پیدل فوج اور بنیادی ہتھیاروں کے ساتھ جنگ لڑی جاتی تھی، یہ بنیادی ہتھیار تلوار، تیر اور نیزےیا ایسے ہی دیگر ہتھیار تھے۔فرسٹ جنریشن وار کے آخر میں بندوق کا استعمال بھی کیا گیا۔یہ بندوقیں آج کی جدید بندوقوں سے مختلف ہوا کرتی تھیں۔ اسے بہت مشکل سے استعمال کیا جاتا تھا۔تب جنگیں خالی میدانوں میں جا کر لڑی جاتی تھیں۔ اس دور میں فوجی جرنیل اپنی فوج کے ساتھ ہی میدانِ جنگ میں موجود ہوتے تھے ۔
سیکنڈ جنریشن وارکا آغاز انیسویں صدی میں ہوا۔ اس جنریشن میں فرسٹ جنریشن وار کو موڈیفائی کیا گیا۔پہلے اگر بندوق کی رینج 10،20یا 50 میٹر تک تھی تو اب اس کی رینج 100،200یہاں تک کہ 500 میٹر تک ہو گئی تھی۔ فوجیں دور سے ہی اپنے دشمنوں پر حملہ کرتی تھی۔اب ان بندوقوں کو استعمال کرنا آسان ہو گیا تھا۔ان ہتھیاروں نے جنگ کا طریقہ کار ہی بدل دیا ۔اس دور میں ہی پہلی مرتبہ کیموفلج کپڑوں کا استعمال کیا گیا جسے فوجی پہن کر گردونواح کے مطابق خود کو ڈھال کر چھپ جاتے تھے۔فوج کو چھوٹے چھوٹے یونٹس میں بانٹ دیا گیا ۔جو جلدی حملہ کر کے چھپ جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ تھرڈ جنریشن وار میں بھی یہ طریقے استعمال کیے گے اور اب بھی یہ طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔
گولہ باری ،ایٹم بم اور راکٹ بھی اسی دور کے آخر میں استعمال کیے گئے۔ جبکہ اس دور میں جرنیل فوجیوں کے ساتھ نہیں ہوتے تھے ،بلکہ محفوظ جگہ سے ریڈیو پر احکامات دیے جاتے تھے۔ اسی دور میں ہی پہلی بارکوڈ وارڈ استعمال کیے گئے تاکہ دشمن کو حکمتِ عملی کا پتہ نہ چل سکے۔
امریکی سول وار ، سپینش سول وار اس کے علاوہ ایرن اور عراق کی جنگ 1980 سے 1988 تک سیکنڈ جنریشن وارکی مثالیں ہیں۔
اب چلتے ہیں تھرڈ جنریشن وار کی طرف۔ تھرڈ جنریشن وار میں مزید جدت آ گئی۔اب صنعتی انقلاب بھی آ گیا تھا۔دنیا اور ٹیکنالوجی بہت آگے بڑھ چکی تھی۔جنگ لڑنے والے ممالک نے یہ محسوس کیا کہ رفتار کی بڑی اہمیت ہے۔جتنی تیزی سے آپ جاتے ہیں اور جتنا آپ سرپرائز دیتے ہیں اُتنا زیادہ آپ اچھا لڑ سکتے ہیں۔اس جنریشن نے تیزی سے حملہ کرنے کے لیے ٹینکس بنائے۔ ہیلی کاپٹراورجہاز بنائے جواوپر سے بم پھینکتے تھے ۔ خطرناک میزائل استعمال کیے گئے۔ تھرڈ جنریشن وار زیادہ خطرناک تھی ۔اس میں ایک آدمی سیکڑوں لوگوں کو مار سکتا تھا۔جس فوج کے پاس ٹیکنالوجی کم ہوتی تھی اس کا فائدہ دوسری افواج اُٹھا لیتی تھیں۔رفتارحد سے بڑھ چکی تھی،دنوں کے فاصلے گھنٹوں اور منٹوں میں طے ہونا شروع ہو گئے تھے۔
پاکستان اور انڈیا کی جتنی بھی جنگیں ہوئی ہیں وہ سیکنڈ اور تھرڈ جنریشن وار فیئر کی جنگیں ہیں۔ کوریاکی جنگ،سوویت یونین ،امریکہ کی سرد جنگ ، اسرائیل اور عربوں کی جنگ اور افغانستان میں امریکہ کی جنگ تھرڈ جنریشن وار فیئر کی مثالیں ہیں ۔
آج بھی اگر کوئی ایک ملک کسی دوسرے ملک سے بَراہِ راست لڑے گا تو تھرڈ جنریشن وار کو ہی استعمال کرے گا۔ اس وقت ترقی اور یونان کے درمیان جنگ کا خطرہ ہے اگر جنگ ہوئی تو یہ تھرڈ جنریشن وار ہی ہو گی۔
اب دیکھتے ہیں کہ فورتھ جنریشن وار کیا ہے۔اس میں فوج اور عام عوام کے درمیان فرق ختم کر دیا جاتا ہے۔اس میں سیاست اور جنگ مکس ہو جاتی ہے۔ فورتھ جنریشن وار میں یہ کیا جاتا ہے کہ پروپیگنڈہ کے ذریعےسے،فنڈنگ کے ذریعے سے،لوگوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر ،لوگوں کی غربت ، محرومیوں اور ناانصافیوں کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے،نوجوانوں کو گمراہ کر کے ایسا لٹریچر دیا جاتا ہےجس پر اُن کے جذبات بھڑکتے ہیں اور پھر وہ ایک ایسے گروہ میں تبدیل ہو جاتے ہیں جو اپنی ہی ریاست کے خلاف جنگ کر دیتے ہیں یا پھر ایسا گروپ بن جاتا ہے جو کسی خاص مقصد کے تحت خاص قسم کے لوگوں کو مارنا شروع کر دیتے ہیں۔اس کو کہتے ہیں فورتھ جنریشن وارفیئر۔اس کا آغاز 1989 میں امریکہ نے اپنی شاطر ذہنیت کے ساتھ کیا تھا۔
ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) فورتھ جنریشن وار کی مثال ہے جس نے پاکستان پر حملے کیے۔ایک وقت ایسا تھا کہ چالیس حملے ہوے پاکستان میں۔کبھی جی ایچ کیو پر حملہ کیا تو کبھی مساجد پر ،کبھی امام بارگاہ پر حملہ کیا تو کبھی بازاوں میں بم دھماکے۔یہ حملے فورتھ جنریشن وارفیئر کے حصہ تھے۔ٹی ٹی پی اور دوسرے گروہوں کو باقائدہ انڈیا ،اسرائیل اور سی آئی ای کی جانب سے فنڈنگ کی گئی۔
فورتھ جنریشن وار فیئر میں آج تک صرف ایک ملک ہے جس نے یہ جنگ جیتی ہے باقی ساری ریاستیں ہاری ہیں ۔ جہاں جہاں یہ جنگ چھڑی کوئی اس کو نہیں جیت سکا سوائے ایک ملک کے اور وہ ملک ہے پاکستان۔اس میں پاکستان کا بہت نقصان بھی ہوا اور فورتھ جنریشن وار ہے ہی مسلمانون کے خلاف کیونکہ اسے امریکہ نے شروع کیا تھا اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کے اور مسلمانوں کے خلاف شروع کیا۔لیکن پاکستان اس سےکامیابی کے ساتھ لڑا اور اپنی جیت ثابت کی۔
یہ تو تھیں پہلی چار جنریشنز وار پانچوی بہت اہم ہے اس پر الگ سے تفصیل سے لکھوں گا اور انشاءاللہ بہت جلد آپ باغی ٹی وی کی ویب سائٹ پر پڑھ سکیں گے۔ تب تک کے لیے اَللہ نِگَہبان۔
@iamAsadLal
twitter.com/iamAsadLal

Shares: