اولاد ہمیشہ انسان کی کمزوری رہی ہے۔
اولاد نہ ہو تو انسان کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ اولاد میں صرف بیٹیاں ہوں تو اپنی قسمت کو کوسنے لگتا ہے۔ صرف بیٹے ہو تو بیٹی کے لیے آنکھیں ترسنے لگتی ہیں۔اگر اولاد نافرمان ہو تو انسان جیتے جی خود کو زندہ درگور محسوس کرتا ہے۔

اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں اولاد کو انسان کے لیے آزمائش سے تبعیر کیا ہے۔اولاد نالائق ونافرمان ہو تو انسان کے لیے اس سے بڑی آزمائش کیا ہو سکتی ہے۔اور اگر سرے سے اولاد ہی نہ ہو تو پھر بھی انسان پل بھر چین سے نہیں بیٹھ سکتا۔

اللہ رب العالمین کی آخری کتاب قرآن مجید میں جابجا اس بات کا تذکرہ موجود ہے ۔کہ اس کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے حکم کی پابندی کرتا ہے۔ سورہ انعام میں فرمان الٰہی ہے کہ اس دنیا میں کسی درخت کا ایک پتا بھی اس کے حکم کے بغیر زمین پر نہیں گرتا۔

اللہ تعالٰی زمین و آسمان کی ہر چیز کا خالق اور مالک ہے۔ ہر زی روح کے پیدا ہونے سے مرنے تک اس کے ہر معاملے کا اسے علم ہوتا ہے۔ حتی کہ پتھر کے اندر کیڑے کے حالات سے بھی باخبر ہوتا ہے اور اس کے رزق کا انتظام کرتا ہے۔جب اللہ تعالٰی کی ہمہ گیر حاکمیت کا یہ معاملہ ہو تو پھر انسان جسے قرآن مجید میں ناشکرا اور اس طرح کے دیگر لقابات سے نوازا گیا ہے۔ وہ کتنی ڈھڈئی کے ساتھ اپنے اور اس دنیا کی ہر چیز کے خالق ومالک کو چھوڑ کر اولاد جیسی نعمت کے حصول کے لیے اس کے در پر حاضر ہونے کے بجائے شیطان کے ورغلانے پر جگہ جگہ قبروں اور مزاروں پر سجدہ ریز ہوتا ہے۔ وہ جو خود بے بس و لاچار ہیں۔ جو اللہ تعالٰی کی رحمت و مغفرت کے امیدوار ہے وہ اسے کیا دیں گے۔

اللہ تعالٰی جسے اولاد نہ دینا چاہے تو ہزار جتن کر لے اسے اولاد نصیب نہیں ہوتی اور جسے اولاد دینے کا فیصلہ کرتا ہے تو پھر بانجھ اور عمر رسیدہ عورتوں کی گود بھی ہری کر دیتا ہے۔ یہ شان بے نیازی اللہ رب العالمین ہی کو زیب دیتی ہے۔ہمیں ہر حال میں ہر معاملے میں اپنے خالق ومالک ہی سے مانگنا چاہیے۔

اللہ پاک سمجھ کر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین

@RajaArshad56

Shares: