انسان کی زندگی خوشیوں غموں آزمائشوں اور خوشحالی کا مرکب ہے. کبھی اس پر خوشیوں کی بہار رہتی تو بھی غموں کی دھوپ کبھی اسے آزمائشوں کے تپتے صحرا گزرنے پڑتے تو کبھی خوشحالی کی ہریالی نصیب ہوتی. یہاں تک کہ بیماری صحت اور اس جیسے امتحانات بھی اسی زندگی کا حصہ ہیں. انسان پر جب آزمائش یا پریشانی آتی ہے تو وہ رب کریم کی طرف پلٹتا ہے اور جب خوشحال ہوتا ہے تو رب کریم کی بندگی کو اہمیت نہیں دیتا.
رب کریم نے اپنی لاریب کتاب میں اے بڑے واضح انداز میں بیان کیا ہے.
اللہ کریم نے ارشاد فرمایا.
وَ اِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهٗ مُنِیْبًا اِلَیْهِ ثُمَّ اِذَا خَوَّلَهٗ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِیَ مَا كَانَ یَدْعُوْۤا اِلَیْهِ مِنْ قَبْلُ
سورہ زمر کی ایت نمبر 8 کے اس حصے میں اللہ کریم نے ارشاد فرمایا.
اور جب آدمی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تواپنے رب کو اس کی طرف رجوع کرتے ہوئے پکارتا ہے پھر جب اللہ اسے اپنے پاس سے کوئی نعمت عطا کرے تو وہ اس تکلیف کوبھول جاتا ہے جسکی طرف وہ پہلے پکاررہا تھا.
اسی زمرے میں نبی کریم خاتم النبیںن محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
جسے یہ بات پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ سختیوں اور مصیبتوں میں اس کی دعا قبول فرمائے تو اسے چاہئے کہ وہ راحت و آسائش کے دنوں میں اللہ کریم سے بکثرت دعا کرے۔
جب انسان پر خوشحالی کا دور آتا ہے تو وہ اللَّهُ کریم کی عطائیں بھول جاتا ہے. اپنے من مستی کی زندگی میں لوٹ جاتا ہے. گناہ کرنے لگتا ہے اور اپنی تنگدستی کے دور کو بھول جاتا ہے. جب انسان گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ دھبہ لگ جاتا ہے. اور انسان کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا. چونکہ شیطان بھی شامل حال ہوتا ہے تو انسان گناہ کرتا چلا جاتا ہے اور انسان کا دل ہوتے ہوتے سیاہ اور سخت ہو جاتا ہے.
سیاہ دل کے نقصانات کیا ہیں. 1. انسان کا رب کی راہ میں دل نہ لگنا.
انسان کو ہر نیکی کے کام میں کیڑے دکھتے ہیں. جیسا کہ
خیرات نہیں کرتا کہ دولت کم ہو جائے گی.
نماز نہیں پڑھتا کہ بوڑھوں کا کام ہے.
نیکی کرنے والوں پر طنز کرتا ہے بڑے آے صوفی صاحب.
2. شعور گناہ کا ختم ہو جانا.
ہر گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اور فخر سے اپنے کیے کا چرچا کرتا ہے. ناحق مال ہڑپتا ہے اور اپنی دھونس بنانے کے لئے اس کا چرچا کرتا ہے.
دھوکا دے کر اپنی عقل مندی کے گیت گاتا ہے. الغرض گناہ کا شعور ہی ختم کر بیٹھتا ہے.
جب دل سیاہ ہو جاتا ہے انسان اپنے رب کی بارگاہ سے دور چلا جاتا ہے. گناہ کر کے فخر محسوس کرتا ہے. لیکن جب انسان پر رب کی کرم نوازی ہوتی ہے اور انسان توبہ کرتا ہے تو اس کے دل کی سیاہی دور ہو جاتی ہے.
پھر اللہ اس کے دل کو اطمینان عطا کرتا ہے اور وہ اپنے رب کے سامنے توبہ کرتا ہے.
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا
بے شک اللہ کا زکر دلوں کو سکون دیتا ہے. یہی سکون اسے واپس رب کی راہ پر لے کر لوٹتا ہے. دل کی سختی کے بارے حضور کریم خاتم النبیںن محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کا واضھ پیغام موجود ہے.
حضرت عبداللہ بن عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور کریم خاتم النبیںن محمد صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا:’’اللہ کریم کے ذکر کے علاوہ زیادہ کلام نہ کیا کرو کیونکہ اللہ کریم کے ذکر کے علاوہ کلام کی کثرت دل کو سخت کر دیتی ہے اور لوگوں میں اللہ کریم سے سب سے زیادہ دور وہ شخص ہوتا ہے جس کا دل سخت ہو. تو انسان کو چاہیے کہ اپنے رب سے تعلق مضبوط رکھے تاکہ دل کی سختی اور سیاہی سے بچ سکے
@EngrMuddsairH