کسی بھی ریاست کا ریاستی نظام بنیادی طور پر صدارتی یا پارلیمانی ھوتا ھے۔ صدارتی ڈھانچے میں تمام تر اختیارات صدر کے پاس ھوتے ھیں گو کہ سینیٹ کا عمل دخل بھی ھوتا ھے لیکن اخری و خصوصی اختیارات پھر بھی صدر کے پاس ھوتے ھیں جنھیں صدارتی نظام میں سینیٹ ختم نھیں کر سکتی جبکہ سب سے بڑی ریاستی عدالت بھی اسکی وضاحت تو کر سکتی ھے لیکن ختم نھیں۔

اسی طرح دوسرا ریاستی نظام پارلیمانی ھوتا ھے جس میں ریاست کا سربراہ وزیراعظم ھوتا ھے جبکہ ساتھ پارلیمنٹ لازم حصہ ھوتی ھے۔ پارلیمانی نظام میں وزیراعظم بطور قائد ایوان پارلیمنٹ میں حکومتی جماعتوں کی نمائندگی کرتا ھے اور ر طرح کا بل پارلیمنٹ سے پاس کروایا جاتا ھے۔ گو کہ اس میں بھی وزیراعظم صوابدیدی اختیارات رکھتا ھے لیکن پارلیمنٹ مکمل اختیار رکھتی ھے کہ وزیراعظم کے خصوصی اختیارات سے بنائے کسی بھی قانون کو کالعدم کر سکتی ھے۔

صدارتی و پارلیمانی نظام ریاستی امور کے نگران ھوتے ھیں عمومی طور پر داخلہ، خارجہ، قانون و انصاف، پارلیمنٹ و سینیٹ کے ذریعے آئینی تبدیلیاں شامل ھوتی ھیں جبکہ اس سب کے ساتھ ایک اور متوازی نظام حکومت بھی ھوتا ھے جسے بلدیاتی نظام حکومت کہتے ھیں۔ بلدیاتی نظام حکومت ریاستی امور نھیں دیکھتا بلکہ ریاست کے اندر سماج کے بنیادی اور ترقیاتی امور کا جائزہ لیتا ھے۔

بلدیاتی یا لوکل گورنمنٹ کا نظام صدارتی و پارلیمانی نظام کے ھم پلہ کبھی بھی نھیں ھو سکتا اور نہ ھی صدارتی و پارلیمانی نظام کے تحت چلنے والے بنیادی امور کو سنبھال سکتا ھے لیکن صدارتی و پارلیمانی نظام کے تحت چلنے والے ریاستی ڈھانچے کی ترقی کا سبب ضرور بنتا ھے۔

بلدیاتی نظام کو لوکل گورنمنٹ سسٹم بھی اسی لئے کہا جاتا ھے کہ اس نظام کے تحت ترقی کی شرح پسماندہ ترین علاقوں سے لیکر ترقی یافتہ میٹروپولیٹن شہروں میں برابر ھوتی ھے۔

بلدیاتی نظام یا لوکل گورنمنٹ سسٹم یونین کونسل لیول سے شروع ھو کر چئیرمین لیول سے ھوتا ھو ضلعی یا ڈسٹرکٹ ناظم پر آ کر مکمل ھو جاتا ھے جس کے تحت حکومتی اختیارات کا بالکل نچلی سطح تک منتقل کرنا ھے جس میں مقامی علاقے کے معززین کو علاقے کی ترقی و بنیادی وسائل کیلئے نامزد کمیٹی میں بطور نگران کام کرتے ھیں جس میں سیاسی سے زیادہ وھاں کے مقامی لوگوں کے ذریعے مقامی لوگوں کیلئے معاشی استحکام کی طرف بڑھنا ھوتا ھے۔

کسی بھی ریاست کا ترقیاتی ڈھانچہ وھاں کے بلدیاتی یا لوکل گورنمنٹ سسٹم کا مرھون منت ھوتا ھے اس لئے بلدیاتی نظام یا لوکل گورنمنٹ ایکٹ جس قدر مضبوط ھو گا مقامی سطح پر ترقیاتی امور کی شرح اتنی ھی تیز ھو گی جسکی وجہ سے صدارتی و پارلیمانی ڈھانچہ اندرونی طور پر اتنا ھی مضبوط ھو گا۔

ترقی یافتہ ممالک کو سامنے رکھا جائے تو اس میں کوئی شک نھیں کہ وھاں کے مضبوط بلدیاتی یا لوکل گورنمنٹ سسٹم نے حکومتی اختیارات عام عوام تک نچلی سطح میں منتقل تو کئے ھی ھیں لیکن ساتھ میں صدارتی و پارلیمانی ڈھانچے کو بھی مضبوط تر کیا ھے۔

بلدیاتی نظام یا لوکل گورنمنٹ سسٹم ھی واحد نظام ھے جو سیاستدانوں کی نرسری کہلاتا ھے جس کی وجہ سے صدارتی و پارلیمانی نظام کے مرکزی انور تک پہنچنے والا شخص جھاں بلدیاتی یا لوکل گورنمنٹ سسٹم کے تحت مقامی سماج کی خدمت کرتا تھا ویسے ھی اب حکومتی امور میں اسقدر دسترس رکھتا ھے کہ اگے چل کر صدارتی و پارلیمانی نظام میں بھی ریاستی امور کو بخوبی سر انجام دیتا ھے۔

عوام کی بنیادی ضروریات خوراک، صحت، تعلیم، امن و امان اور بہترین وسائل کے ذرائع ھیں جو صرف اور صرف وھاں پر موجود بلدیاتی یا لوکل گورنمنٹ سسٹم کے تحت ھی پورے ھو سکتے ھیں کیونکہ دور دراز کے رھنے والے ریاستی مرکز سے دور علاقوں میں بسنے والے لوگوں کی ضروریات پوری ھی اسی بلدیاتی یا لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت ھو رھی ھوتی ھیں اور ان علاقوں کے لوگوں کی رسائی بھی اپنے بلدیاتی نمائندوں تک ھی ھوتی ھے۔

اگر ھم موجودہ بلدیاتی نظام یا لوکل گورنمنٹ سسٹم کا بغور جائزہ لیں تو اس میں ذاتی مفاد کے حصول سے لیکر ذاتی سکون کے حصول تک ھی زور لگایا گیا ھے جسکی وجہ سے وسائل کا درست استعمال نھیں ھو سکا اور مقامی لوگوں کیلئے اپنے بلدیاتی نمائندوں تک رسائی ممکن نھیں رھی اور وہ دور دراز علاقے آج بھی بے بسی کی بھیانک تصویر بنے نظر آتے ھیں جھاں سماج کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے وسائل بھی دستیاب نھیں ھوتے جسکی وجہ سے ان علاقوں کی محرومیوں میں اضافہ ھوتا جاتا ھے جو آگے چل کر صدارتی و پارلیمانی ریاستی ڈھانچے کو اندر سے کھوکھلا کرنا شروع کر دیتا ھے جسکا نتیجہ یہ نکلتا ھے کہ سب سے پہلے ریاست میں داخلی انتشار کے مسائل جنم لیتے ھیں جو بعد میں بڑی عسکری تنظیموں کا روپ دھار کر ریاستی اداروں کو چیلنج کرنا شروع ھو جاتے ھیں۔

پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن سے قبل جھاں متعدد وعدے کئے تھے ان میں ایک وعدہ بلدیاتی یا لوکل گورنمنٹ سسٹم کی ماندہ خامیوں کو دور کر کے دوبارہ سے نافظ العمل کرنا بھی تھا کیونکہ صدارتی و پارلیمانی ڈھانچے میں بیٹھے منتخب یا سلیکٹ افراد کا کام ریاست کیلئے قانون سازی کرنا ھے جبکہ مقامی سطح تک ترقیاتی امور کو لیکر چلنا بلدیاتی یا لوکل گورنمنٹ سسٹم کا کام ھے۔

اس کیلئے پاکستان تحریک انصاف نے پرانے بلدیاتی نظام کو ختم کر کے نئی قانون سازی کے ذریعے نئے بلدیاتی نظام یا لوکل گورنمنٹ سسٹم کے تحت اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرنے کا جو وعدہ کیا تھا وہ کسی مصلحت کے تحت آج تک وفاء نھیں ھو سکا جس کا سب سے زیادہ نقصان مقامی لوگوں کو ھوا کیونکہ پرانے بلدیاتی نظام کو ختم کر کے تمام مقامی منتخب نمائندوں کو معزول کر دیا گیا تھا اور نئے بلدیاتی نظام یا لوکل گورنمنٹ سسٹم کو نافظ بھی نھیں کیا جا سکا۔
اس حوالے سے ایک حد تک دیکھا جائے تو اس میں بھی کوئی دو رائے نھیں کہ یہ ایک بہت توجہ طلب کام ھے جس میں بلدیاتی نظام یا لوکل گورنمنٹ سسٹم کے ڈھانچے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ھے جس میں الیکشن میں حصہ لینے والے افراد کی تعلیمی قابلیت سے لیکر ان کی ذھنی صلاحیت تک کے امور کو جانچنا شامل ھے تا کہ کل کو منتخب ھونے والا شخص اتنی اھلیت تو رکھتا ھو کہ سرکاری دستاویزات سے لیکر عوامی مسائل کو سن کر انھیں قانونی طریقے سے حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ھو۔

لیکن سوال یہ ھے کہ بلدیاتی نظام یا لوکل گورنمنٹ سسٹم کب تک نافظ ھو گا کب تک اسکی نوک پلک سنوار لی جائے گی کب تک اس نظام سے مقامی لوگوں کو فائدہ پہنچنا شروع ھو گا کب تک دور دراز کے پسماندہ علاقے اس سے استفادہ حاصل کرنا شروع ھوں گے۔
یہ وہ سوالات ھیں جو آج بھی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کیلئے کسی چیلنج سے کم نھیں اور پوری قوم اس چات کی امید رکھتی ھے کہ جلد از جلد بلدیاتی نظام یا پارلیمانی سسٹم کو نافظ کر کے اختیارات مقامی سطح تک منتقل کئے جائیں گے تا کہ دو نھیں ایک پاکستان کے ساتھ ساتھ طبقاتی نھیں بلکہ سب کا یکساں پاکستان کا خواب پایہ تکمیل کو پہنچ سکے۔

@SmPTI31

Shares: