ریپسٹ کو آزاد کرو تحریر:فجر علی

0
35

ہم اور معاشرہ یہ ایک ایسا تعلق ہے جو کبھی ٹورنے سے بھی نہیں ٹوٹتا ۔معاشرہ ہم سے بنتا یہ بات ہم کیوں بھول جاتے ؟ جو ہم کرتے وہی سب دوسرے لوگ بھی کرتے اسے معاشرتی علوم کہتے کہ معاشرے کا علم ہونا ۔
اب یہاں ایک بات زیر غور رہے کہ جب ایک مرد ایک انسان کسی عورت کی عزت پامال کرتا ہے تو سبھی اس ایک شخص کے نقشے قدم پر کیوں چل پڑے؟
کیا ہمارے معاشرے میں عورت کی عزت کو اتنی آسانی سے نوچ دیا جاتا؟ اتنا آسان ہوتا کسی کی زندگی ایک پل میں برباد کرجانا؟
ہمیں دیکھایا جاتا تھا بچپن میں کہ مدرسے کا قاری جو قرآن سکھاتا ہے وہ باپ سے بھی اونچا رتبہ رکھتا لیکن ہمارے معاشرے میں ہم کیا دیکھ رہے ؟
مسجدوں میں مدارس میں گرجا گھروں میں اس عبادت گاہوں میں سب جگہ عورت ، خواہ وہ 1 سال کی بچی ہو یا 30 سال کی جوان لڑکی، شادی شدہ ہو یا 3 بچوں کی ماں ، مرد کا لباس اوڑھے بھیڑیے آپکو چاروں طرف نوچنے کیلئے ڈھونڈ رہے ہوتے ہر وقت ۔نظر رکھے ہوئے بیٹھے رہتے کہ کب کوئی بچی کوئی لڑکی کوئی خاتون بس ہو عورت گھر سے نکلے تو فورا سے اسے چھپٹنے کو تیار بیٹھے ہوتے ۔یہ ہمارے معاشرے کے وحشی دریندے ہیں ۔جو ہمیں نوچنے کو تیار بیٹھے ۔
بچوں کے ماں باپ سے یہاں شکوہ ہے مجھے وہ کیسے اپنے بچوں پر نظر نہیں رکھتے بچے جہاں بڑھتے ہیں انکے اساتذہ سے ملتے کیوں نہیں ۔
معاشرہ خراب ہے تو یہاں ریاست کی بھی نااہلی چیخ چیخ کر اس بات کا ثبوت دیتی ہے کہ ہم نے کسی بھی ریپسٹ کو سزا نہیں دی ۔
ریاست سے ایک بیان جاری ہوا کہ انکے عضو خاص کاٹ دیا جائے گا لیکن یہ بھی محض ہر بیانات کی ایک بیان ہی رہا ۔حوا کی بیٹی ہر روز کہیں نہ کہیں ان درندوں کے ہاتھوں کا شکار ہورہی لیکن ریاست صرف انصاف اگر دیتی ہے تو وہ ہے امراہ کو یا پھر ان لوگوں کو جو پاکستان سے باہر لوگ شور مچاتے ورنہ بیچارے ماں باپ یہاں اپنی بیٹیوں کو لیکر یا توں شہر چھوڑ کر چلے جاتے یا پھر رپورٹ درج نہیں کرواتے ۔
ریاست ہر معاملے کی طرح یہاں بھی سو رہی سب وحشی کھل کر سامنے آئیں کیونکہ ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے ایک کام جب کوئی کرتا تو دوسرا بڑھ چڑھ کر اس میں اپنا حصہ ڈالتا ہے ۔افسوس ہم ایسے ہی معاشرے کا حصہ ہیں ۔جہاں کبھی کسی کو انصاف ملتے نہیں دیکھا ہا ن گناہ کرکے چھپ جاو یا بیچ میں ہی گھوموں پھرو کیونکہ یہاں انصاف ملنا ایسے ہے جیسے اونٹ کے منہ میں زیرہ۔

@FA_aLLi_

Leave a reply