آج ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں ہر کوئی منصف بنا ہوا ہے۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے جسے آپ یہ میں جھٹلا نہیں سکتے۔
جیسے کہ ابھی آپ نے اس آرٹیکل کا موضوع پڑھ کر ہی سوچ لیا ہوگا کہ یہ ایسا ہو گا یا ویسا ہوگا۔
بلکل اسی طرح ہم دن رات دوسرے انسانوں کے بارے میں بھی راۓ قائم کر لیتے ہیں اور نہ صرف راۓ قائم کرتے ہیں بلکہ اس کو حتمی جان کر اس شخص یا اس چیز کے بارے میں فیصلہ بھی کر لیتے ہیں۔
کسی سیاستدان کا کوئی بیان آیا تو ہم نے اس کے بارے میں فیصلہ صادر کر دیا کہ یہ تو ہے ہی برا/ کرپٹ/چور
دنیا میں کوئی بھی واقعہ پیش آۓ چاہے وہ موسمی تبدیلی ہو
کوئی عالمی وبا ہو
کوئی حادثہ ہو
ہم نے اس کے اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ ضرور دینا ہوتا ہے۔
ہم مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم سب ہی اپنی ذات میں منصف ہیں۔ کوئی کم ہوسکتا ہے ، کوئی زیادہ ہو سکتا ہے، لیکن اس سے انکار آپ نہیں کر سکتے۔
صبح جاگنے سے لے کر رات کو سونے تک، ہم اپنا زیادہ تر وقت اپنے اسی مشغلے میں صرف کر دیتے ہیں۔
ہمیں اپنے سے زیادہ دوسرے کی فکر ہوتی ہے کہ اس نے یہ کام غلط کیا۔
وہ چیز خراب کی
وہ یہ کام اس طرح سے کرتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔
صرف کام ہی نہیں ہم تو انسان کے بارے میں بھی یہ کرتے ہیں کہ
یہ انسان اچھے مزاج کا ہے۔
وہ بدمزاج ہے ۔
فلاں تو بہت اکھڑ مزاج ہے۔
فلاں نہایت اچھا اور نرم مزاج ہے۔
بطور معاشرہ ہمارا رویہ ایسا ہوگیا ہے کہ ہم ہر وقت اسی کام اور اسی مشغلے میں مگن رہتے ہیں۔
اُس نے یہ ٹھیک کیا
ِاس نے یہ غلط کیا۔
وہ اچھا ہے
یہ برا ہے۔
وہ ہونا چاہیے تھا
یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔
یہاں تک کہ جن لوگوں کو ہم ذاتی طور پر جانتے بھی نہیں ہیں ان کے متعلق بھی راۓ قائم کر کے ان کے بارے میں فیصلہ کرلیتے ہیں۔
اور یہ فیصلہ عموماً بظاہر دیکھ کراچھا یا برا کیا جاتا ہے۔
اب آپ سوچیں گے کہ اس میں کیا غلط ہے؟
مسلہ یہ نہیں کہ ہم یہ سوچتے ہیں بلکہ اصل المیہ یہ ہے کہ ہم سچائی جانے بغیر یہ سب کرتے ہیں اور پھر اس ڈٹ جاتے ہیں
نہ صرف خود، بلکہ دوسروں پر بھی اپنا یہ فیصلہ مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بے شک ﷲ پاک نے انسان کو دماغ اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عطا کی ہے
لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم زبردستی کے منصف بن جائیں اور کسی کے بارے میں پوری طرح جانے بغیر اس کے بارے میں اچھا یا برا ہونے کا فیصلہ کر دیں۔
اس طرح زبردستی کے منصف بن کر، دوسروں کے بارے میں فیصلے کر کے ہم نہ صرف ان لوگوں کی بلکہ اپنی زندگی بھی مشکل بنا رہے ہیں۔
کیونکہ ہمیں نہیں معلوم کہ سامنے والا انسان ابھی کن مشکل حالات سے گزر رہا ہے جس کی وجہ سے وہ اتنا تلخ مزاج ہوگیا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ کوئی کتنے دکھ سہہ کر بھی مسکرا رہا ہے۔
اس لیے اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگی بھی آسان بنائیں۔
دوسروں کے بارے فیصلہ صادر کرنے میں جلد بازی نہ کریں۔ جب تک آپ اس کے متعلق سب جان نہ لیں.
سب ہی ایک جیسے اچھے یا برے نہیں ہوسکتے۔
کیونکہ رب العزت نے سب کو الگ شکل، مزاج، سمجھ، دماغ کے ساتھ پیدا کیا ہے۔
بہتر ہے کہ دوسروں کو بھی انسان ہونے کا مارجن دیں اور بلاوجہ جج بن کر راۓ قائم کرنے سے گریز کریں۔
اس سے نہ صرف آپ کی بلکہ آپ کے ارد گرد رہنے والوں کی زندگی بھی پرسکون ہو گی۔







