آج کے تیز رفتاز دور میں جب انسان ترقی کی منازل طے کرتا جا رہا ہے وہاں دوسری طرف اس نے اپنے آپ کو اس قدر مصروف کر لیا ہے کہ اپنے اردگرد ہونے والے معاملات اور حالات سے آگاہی تقریباً ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اپنے دوستوں رشتہ داروں سے میل جول اب نہایت قلیل ہو گیا ہے۔ اس کے کئی معاشرتی نقصانات تو ہیں ہی لیکن اس کا سب سے بڑا نقصان اس کی اپنی شخصیت کو ہو رہا ہے۔
کام کی بہتات اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی فکر نے اس میں چڑچڑا پن اور بے حسی جیسی خصلتیں پیدا کر دیی ہیں۔ چڑچڑا پن اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ وہ کام کے دوران ہونے والی باتوں کا اثر ذائل نہیں کر پاتا اور بلآخر اس کا اثر اس کے گھر والوں، بیوی اور بچوں پر بھی پڑتا ہے جس کی وجہ سے خاندان کے ساتھ ساتھ معاشرے کے دوسرے لوگ بھی اس سے دور ہونے لگتے ہیں۔ عدم برداشت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ہم کسی دوسرے شخص کو بھی اپنے تابع بنانا چاہتے ہیں ورنہ بات جھگڑے اور فساد تک پہنچ جاتی ہے۔
جب بھی عدم برداشت کی بات آتی ہے تو مجھے ایک واقعہ یاد آ جاتا ہے۔ یہ پچھلے سال رمضان کا واقعہ ہے۔ میں نے اللہ کے حکم سے رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا ارادہ کیا۔ بس میں سیٹ بک کروائی اور مقررہ دن کو ایجنسی میں پہنچ گیا۔ عصر کے بعد ہمارے شہر (الجبیل) سے گاڑیاں نکلا کرتی تھیں۔ گاڑی میں بیٹھنے لگے تو معلوم ہوا کہ ڈرائیور بھی کوئی پاکستانی ہے۔ سوچا خوب بیتے گی لیکن کیا معلوم تھا کہ تھوڑی دیر بعد کیا تماشہ ہونے والا ہے۔ ڈرائیور صاحب بس میں داخل ہوتے ہی بلند آواز میں گویا ہوئے کہ بس میں کسی کو کچھ بھی کھانے کی اجازت نہیں ہے، جس نے کچھ کھانا ہے باہر جا کے کھا لے۔ ہمارے لئے یہ پہلا تجربہ تھا کہ کوئی ڈرائیور ایسا اعلان کرے حالانکہ اس نے ہر سیٹ کے ساتھ کچرا ڈالنے کے لئے ایک ایک پلاسٹک بیگ بھی لگا رکھا تھا۔ خیر، عصر کے بعد گاڑیاں قافلے کی صورت میں مقررہ مقام سے روانہ ہوئیں اور تقریباً دو گھنٹے بعد ایک پیٹرول پمپ پہ افتار کے لئے رک گئیں۔ سب لوگوں نے روزہ افتار کیا نمازیں (مغرب اور عشا اکٹھی) پڑھیں اور گاڑی میں بیٹھنا شروع ہو گئے۔ ایک مصری شخص، جو ڈرائیور کے عین پیچھے والی سیٹ پہ بیٹھا تھا وہ اپنے لئے کافی لے آیا اور سکون سے پینے لگا۔ اتنے میں ڈرائیور صاحب آئے اور آتے ہی نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ، اس سے کافی کا گلاس چھینا اور دروازے سے باہر جاتا کیا۔ مصری پریشانی سے بولا بھائی میرا 25 ریال کا کپ تھا اور میں تو کچرا بھی نہیں پھینک رہا لیکن یہ کیا طریقہ ہے؟
اتنے میں ڈرائیور صاحب بولے جس کا ترجمہ ہے کہ "تم مجھے پنگالی یا ہندوستانی مت سمجھو،میں پاکستانہ ہوں اور میں تمہیں مزہ چکھا دوں گا” بس اس بات کا سننا تھا کہ اگلے جوان کے خون نے بھی جوش مارا اور اس نے ڈرائیور کے جو اس کے تقریباً اوپر ہی چڑھ دوڑا تھا پیچھے دھکیلا۔ یہ منظر اس ڈرائیور کے چند مزید رشتہ دار (ڈرائیورز) بھی دیکھ رہے تھے اور وہ سب کے سب مصری شخص پہ ایسے ٹوٹ پڑے جیسے بھوکے شادی کا کھانا کھلنے پہ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اس مار دھاڑ میں بیچارے مصری کی پانچ چھے گھونسے اور کافی سارے ٹھڈے پڑ گئے۔ لوگوں کی مداخلت پہ معاملہ ٹھنڈا ہوا اور مصری آنسو پونچھتے ہوئے بس سے اتر کر پیٹرول پمپ کی طرف بڑھ گیا۔
چند لمحوں بعد وہ ایک پولیس والے کے ساتھ سامنے سے آتا ہوا دکھائی دیا۔ پولیس والے نے اپنی کار ہماری گاڑی کے سامنے لا کر کھڑی کر دی اور تحقیقات شروع ہو گئیں۔ وہ چند شیر جوان جو تھوڑی دیر پہلے اس ڈرائیور کے ساتھ مل کے مصری کو مار رہے تھے آہستہ آہستہ اپنی گاڑیاں نکال کر فرار ہو گئے۔ وہ ڈرائیور جو تھوڑی دیر پہلے پھنے خان بنا ہوا تھا اب معذرتوں پہ آ چکا تھا۔ پولیس والے سے الگ معافی مانگی جا رہی تھی، مصری کے الگ پاؤں پکڑے جا رہے تھے۔ اور ہم سب تین گھنٹے تک ایک نہ کردہ گناہ کی سزا کاٹ رہے تھے۔ بالآخر بس کے لوگوں اور چند مصری اور سوڈانی مسافروں کی مداخلت سے مصری معاملہ رفع دفع کرنے پہ راضی ہوا اور راضی نامے پہ دستخط کرنے کے بعد ڈرائیور کی جان چھوٹی۔
اس سارے معاملے کے بعد اکثر لوگوں کو نقصان یہ ہوا کہ ان کے عمرہ کے پرمٹ تین گھنٹے کی تاخیر کی وجہ سے ایکسپائر ہو چکے تھے۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ ڈرائیور پیار سے اسے کہتا بھائی آپ کافی باہر پی لو ابھی گاڑی رکی ہوئی ہے تو ایک تو یہ تاخیر نہ ہوتی دوسرا ہم پاکستانیوں کے سر شرم سے نہ جھکتے۔ یاد رہے، جب بھی ہم علی الاعلان کوئی غلطی یا کوئی گناہ کرتے ہیں وہ ناصرف ہمارے لئے بدنامی کا باعث بنتا ہے بلکہ ہم سے منسلک تمام لوگ اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس لئے برداشت کرنا سیکھیں تاکہ شرمندگی سے محفوظ رہا جا سکے۔
@Being_Faani