اسلام دین فطرت ہے اور دین اسلام نے ہمیشہ فطرت کے اصولوں اور اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ نکاح ایک سنت عمل ہے جسکا حکم اللّہ پاک نے دیا ہے۔ اللہ تعالی نے اس سے متعلق قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے:
وَ اَنۡکِحُوا الۡاَیَامٰی مِنۡکُمۡ وَ الصّٰلِحِیۡنَ مِنۡ عِبَادِکُمۡ وَ اِمَآئِکُمۡ ؕ اِنۡ یَّکُوۡنُوۡا فُقَرَآءَ یُغۡنِہِمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۳۲﴾
تم میں سے جو مرد عورت بے نکاح کےہوں ان کا نکاح کر دو اور اپنے نیک بخت غلام اورلونڈیوں کا بھی اگر وہ مفلس بھی ہوں گےتو اللہ تعالٰی انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا اللہ تعالٰی کشادگی والا اورعلم والا ہے ۔
اسکی عملی مثال ہمیں حضرت محمد صلی اللّہُ
علیہ وآلہ وسلم کی زندگی سے ملتی ہے اور آپ نے جابجا نکاح کے لئے اپنے بندوں کو ترغیب دی ہے۔
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم : اَلنِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي فَمَنْ لَّمْ يَعْمَلْ بِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي وَتَزَوَّجُوا فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ وَمَنْ كَانَ ذَا طَوْلٍ فَلْيَنْكِحْ وَمَنْ لَّمْ يَجِدْ فَعَلَيْهِ بِالصِّيَامِ فَإِنَّ الصَّوْمَ لَهُ وِجَاءٌ
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نکاح میری سنت ہے، جس نے میری سنت پر عمل نہیں کیا وہ مجھ سے نہیں، اور شادی کرو، کیوں کہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔ اور جس شخص کے پاس وسعت ہو وہ نکاح کرلے، اور جس شخص کے پاس گنجائش نہ ہو وہ روزے رکھے، کیوں کہ روزہ اس کے لئے ڈھال ہے۔
حضرت ابو ایوب سے روایت ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
چار چیزیں انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت میں سے ہیں:
حیا،خوشبو لگانا،مسواک کرنا اور نکاح ۔
ہمارے معاشرے میں اس سنت کو پورا کرنے کے لئے
جو طریقہ اپنایا جا رہا ہے وہ انتہائی فرسودہ اور بوسیدہ ہے جب لڑکی باشعور ہو جاتی ہے تو اسکو کو شادی کے بندھن میں باندھنے کے لئے رشتہ کی تلاش شروع ہو جاتی ہے اور اسکے لئے لڑکی کے گھر والوں کو روز مرہ کی دعوت اور نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑتا ہے رشتہ دیکھنے کے لئے جانے والی خواتین کا رویہ لڑکی کے ساتھ اس طرح کا ہوتا ہے جس طرح منڈی میں کسی جانور کو خریدنے سے پہلے اختیار کیا جاتا ہے
لڑکی کو انسان تو سمجھا ہی نہیں جاتا وہ سب کے لئے ایک کٹھ پتلی ہوتی ہے اس سب سے لڑکی کی عزت نفس ہر بار بہت مجروح ہوتی ہے اور اس کی زات کو زلت سہنی پڑتی ہے اسکے ساتھ ساتھ گھر والوں کو بھی ہر بار اسی دکھ اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے بعض اوقات تنگ آکر ماں باپ اس لڑکی کو جو کہ اللّہ کی طرف سے ایک رحمت ہے ، زحمت سمجھنا شروع کر دیتے ہیں
لڑکی دیکھنے کے لئے آنے والے لوگ تو اس کے ساتھ برا سلوک کرتے ہی ہیں لیکن خود اس کے اپنے گھر والے بھی اس کو بے زبان جانور سے زیادہ حیثیت نہیں دیتے۔ یہ بھی ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ لڑکی سے اس کی مرضی جاننا بہت معیوب عمل سمجھا جاتا ہے۔ اس کی زندگی کا اتنا بڑا اور اہم فیصلہ ایک بند کمرے میں طے ہوتا ہے جہاں اس کے علاوہ ماں باپ بہن بھائی سب موجود ہوتے ہیں اور لڑکی کی رضا جانے بغیر رشتہ کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ اس اہم فیصلے کااختیار لڑکی اپنے والدین کو دیتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اس سے بالکل ہی اس کی رضا نہ پوچھی جائے۔
لڑکی چاہے جتنی بھی تعلیم یافتہ ہو یا کسی بہت بڑے عہدہ پر جاب کر رہی ہو اس کو بھی شادی کے لئے ان تمام مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے
جیسے لڑکی کی اپنی زات کی تو کوئی اہمیت ہی نہیں ہے جبکہ لڑکے کے لئے اسی معاشرے میں کوئی ایسی شرائط نہی اسکا لڑکا ہونا ہی اس کے بہتر ہونے کی دلیل ہے لیکن اسی معاشرے میں لڑکی کے لئے شرائط کی ایک لسٹ بنائی جاتی ہے جیسا کہ وہ کتنا پڑھی ہے ، اسکا رنگ روپ کیسا ہے ، اسکا قد کاٹھ کیسا ہے ، اسکی انکھیں ، ناک ، کان، بال، چال ڈھال کیسی ہے اور اگر وہ لڑکی نوکری پیشہ ہے تو وہ نوکری سرکاری ہے یا نہی یہ سوال بہت عام پوچھا جاتا ہے
جسکی وجہ سے والدین لڑکیوں کے اچھے رشتوں کے لئے بے حد پریشان رہتے ہیں اور ہمارے معاشرے نے شادی جیسی اس سنت کو بہت بیچیدہ بنا دیا ہے
اسلام میں شادی اتنی پیچیدہ نہیں ہے ۔خدارا! اس کو آسان بنائیے اور لڑکے والوں کو اس بات کا خیال ضرور رکھنا چاہیے کہ انکے اپنے گھر میں بھی اگر بیٹی جیسی نعمت موجود ہے تو انکو بھی اس زحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اسکے ساتھ ساتھ وہ اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ وہ کسی کے گھر لڑکی کو دیکھنے گئے ہیں نہ کہ کوئی دعوت اڑانے۔
ہمارا دین ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ رشتہ کرتے وقت
ہمیں ایک مسلمان ہونے کے ناطے اس بات کو یقنی بنانا چاہیے کہ لڑکی دیندار ہو، نیک ہو، گھر سنبھالنے والی ہو اور شریف گھرانے سے تعلق رکھتی ہو تو رشتہ کر دینا چاہیے
لڑکی کے والدین کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ لڑکی سے بھی اس کی رضامندی پوچھی جائے
کیونکہ اللہ نے لڑکی کو یہ حق دیا ہےکہ لڑکی کی رضا کے بغیر رشتہ نہ کیا جائے اور
اس کی بہترین مثال اللہ کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہمارے سامنے قائم کی ہے جب انھوں نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ سے حضرت علی کا رشتہ آنے پر ان کی مرضی پوچھی تھی
عَنْ أَبِي مُوْسَى ،أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يَقُولُ: « إِذَا أَرَادَ الرَّجُلَ أَنْ يُّزَوِّجَ ابْنَتَهُ فَلْيَسْتَأْذِنْهَا » .
ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی شخص اپنی بیٹی کی شادی کرنا چاہے تو اس سے اجازت لے لے۔
بعض اوقات ہمارے معاشرہ میں اس رشتہ ڈھونڈو مہم کے کامیاب ہونے کے بعد جب خوش قسمتی سے رشتہ جڑنے کی طرف جاتا ہے تو لڑکی کے والدیںن پر جہیز نما لعنت کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے جو کہ ہمارے معاشرے کا ناسور ہے جب والدین خوش قسمتی سے اپنے حساب سے لڑکی کا اچھا رشتہ ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو انہیں اپنی بیٹی کو رخصت کرنے کے لیے جہیز جیسے مسئلہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انکی جھکی ہوئی کمر ، بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے مزید جھک جاتی ہے۔
اسلام میں شادی کامقصد نمود و نمائش ہر گز نہیں ہے بلکہ شادی کا وآحد مقصد اولاد کی بہترین تربیت ہے۔اور ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو بھی یہ بات سمجھانی ہے۔
اللّہ پاک ہم سب کو ہدایت دے اور لوگوں کے درمیان آسانیاں پیدا کرنے والا بنائے آمین۔
@iEngrDani