جَدوجہد تحریر: افشین

ایسی سَرزَمین جس کے لیے ہمارے آباواجداد نے بہت قربانیاں دیں اور اپنے لہوُ دے کے ایک مملکت حاصل کی جس کو پاکستان کہتے ہیں عَلامہ اقبال مفٙکر پاکستان کے خواب کو مملکت پاکستان بنانے میں قائداعظم محمد علی جناح کی کوشش اور ہمارے تمام آباواَجداد کی قربانیاں شامل ہیں اسلام کا پرچم لہرانے ، آزادی سے جینے اور امن کا گہوارہ بنانے کے لیے یہ مٹی کا ٹکڑا حاصل کیا گیا یہ مٹی کا ٹکڑا ہمارے لیے اپنی جان سے بڑھ کے ہے اسکی حفاظت کے لیے تادم ہم لڑتے رہینگے کوئی میلی آنکھ سے بھی دیکھے گا ہم اسکی آنکھیں چیر دیں گے اپنی عبادت و فرائض انجام دینے اور ہندوؤں کے تسلط سے نکلنے کے لیے یہ وطن عزیز حاصل کیا گیا ہم اپنے شہداء اور آباواجداد کی قربانیاں رائیگاں نہیں جانے دیں گے انگریزوں کے چُنگل سے نکلنے کے بعد ہم ہندووں کے زیر تسلط آجاتے اور ہمیشہ کے لئیے غلامی کی زنجیر میں جھکڑ دیے جاتے سانس لینا صرف جینا نہیں ہوتا ایک جَدوجہد کا نام جینا ہے اور یہی جَدوجہد وطن پاکستان کی صورت میں حاصل ہوئی. کوشش کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں آزادی کا سورج 14 اگَست 1947 کو طلوع ہوا اس جَدوجہد سے کتنے چہروں پہ مسکان آئی آزادی کیا ہے ؟اس گھڑی کے کارواں سے پوچھےجن کی انتھک کوشش جب پروان چڑھی تو کیا تاثرات تھے آنکھوں کی چمک بتاتی تھی کہ انکے لیے وطن عزیز حاصل کرنا کیا معنی رکھتا تھا وہ خود تو اب نہ رہے پر اپنی نسلوں کے لیے مثالِ جہاں بنے۔دنیا کی تاریخ میں سُنہرے حروف میں یہ سبق دے گئےکہ کیسے انسان کی کوشش اسکو کامیاب کرتی ہے جب تک کوشش نہ کی جائے کچھ حاصل نہیں.
اس وقت سرمایہ تک درکار نہ تھا بے گھر افراد کے پاس کھانا پینا تک دستیاب نہ تھا کچھ کو چھت تک نصیب نہ تھی. درویشی سی حالت تھی جہاں پڑاوُ ڈال لیا حالات بہت ناسَازگار تھےآمدورَفت کے ذرائع تک موجود نہ تھے پر موجودہ دور میں رَبّ پاک کا کرم ہے اس ملک میں سب کچھ موجود ہے بس اس ملک کے غداروں کی وجہ سے حالات خراب رہتے ہیں ورنہ اب تک ترقی یافتہ ممالک میں پاکستان سرِفہرست ہوتا جس ملک کے لیے ہمارے آباواجداد نے جانوں کے نذرانے دیے اس ملک کو اسی میں موجود غداروں نے لوٹ لیا ہمیشہ اس ملک کو آپنوں سے نقصان پہنچا۔
ہر سال ہم جشّنِ آزادی مناتے ہیں اور اپنے آباواجداد کی جَدوجہد کو سراہتے ہیں ۔ پہلے پہل آزادی کے دن جسم میں ایک روح جیسے پھونک دی جاتی ایک احساس سا پیدا ہوتا لہو میں آزادی کی ایک لہر دوڑتی جنون ہے آزادی ۔ پرواز ہے آزادی
اب بھی جوش و خروش سے آزادی کی تقریب منائی جاتی ہے وطن سے محبت کبھی کم نہیں ہوسکتی جشن آزادی منانے کا انداز ضرور بدلہ ہے پر وطن پہ جانثار ہونے کے لیے لہو میں گرم جوشی اب بھی ویسی ہی موجود ہےحالات بدلتے گئے کارواں بڑھتا گیا بہت سے بُرے حالات آئے دہشت گردی، سیلاب، زلزلے جیسی مشکلات سے بھی سامنا کرنا پڑا پر میرے وطن کے جیالوں جانبازوں نے کبھی ہمت نہ ہاری ہر طرح کے حالات سے مقابلہ کیا اور اپنی جدوجہد کو روکا نہیں اس ملک کے حالات جو کچھ لوٹیروں کی وجہ سے خراب ہیں ان حالات سے نکلنے کے لیے اس ملک کو اس قوم کے ہر فرد کی ضرورت ہے ہم سب مل کے اپنے ملک کو مضبوط بنانا ہے اپنی جَدوجہد جاری رکھنی ہے وطن حاصل تو کرلیا اب اس کو ترقی یافتہ ممالک میں سر فہرست لانا ہے اس ملک کے رکھوالے بنے اس دھرتی سے ہی ہمارا امن وایمان ہے۔

#

@Hu__rt7

Comments are closed.