دور حاضر میں ٹیکنالوجی نے جہاں ایک طرف بنی نوع انسان کو آسانیاں اور آسائشیں فراہم کی ہیں وہاں اس کی وجہ سے ان گنت سماجی و معاشی مسائل بھی درپیش ہیں۔
سوشئیل میڈیا ایپلیکیشنز کے حوالے سے اس بات کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ایپلیکیشن رابطے کا آسان ذریعہ ہیں لیکن شہرت اور تفریح کے لئیے ایسی ایپلیکیشنز کا بے جا استعمال نہ صرف وقت کے ضیاع کا سبب بن رہا ہے بلکہ ہمارے معاشرتی بگاڑ کی بھی ایک بڑی وجہ بن رہا ہے۔
مشرقی تہذیب و کلچر اسلامی تعلیمات کی بہترین عکاس ہے اور یورپ کی تہذیب سے قطعی مختلف ہے لیکن ٹیکنالوجی نے دنیا کے فاصلوں کو مٹاتے ہوئے تمام تہذیبوں اور معاشروں کو ایک ہی مقام پہ لا کھڑا کیا ہے ۔
ٹک ٹاک ایک سوشیل میڈیا ایپلیکیشن ہے دنیا بھر میں جس کے صارفین کی تعداد کروڑوں میں ہے ۔
ٹک ٹاک نامی ایپلیکیشن چائنہ کے ژانگ یمنگ نامی ایپ ڈویلپر نے 2016 میں بنائی۔ یہ لوگوں میں اتنی مقبول ہوئی کہ چند سالوں میں اس نے یوٹیوب اور فیس بک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ۔
2018 میں ٹک ٹاک نے ایک اور شارٹ ویڈیو ایپلیکیشن میوزیلکی کو 2 ارب ڈالر میں خرید لیا ۔
ٹک ٹاک کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس ایپلیکیشن کو پلے سٹور سے اب تک تقریباً ڈیڑھ بلین مرتبہ ڈاؤن لوڈ کیا جا چکا ہے ۔
پاکستان میں ٹک ٹاک کے صارفین کی تعداد 3 کروڑ کے لگ بھگ ہے جبکہ بھارت میں ٹک ٹاک کے 13 کروڑ صارفین موجود ہیں۔
ٹک ٹاک ایک شارٹ ویڈیو ایپلیکیشن ہے ۔ جس کے صارفین نے 15 سیکنڈز پر محیط ویڈیو بنا کر اس پر اپلوڈ کرنا ہوتی ہے ۔
نوجوانوں میں ٹک ٹاک کا بڑھتا ہوا جنون معاشرے میں نہ صرف بے راہ روی کو فروغ دے رہا ہے بلکہ کچھ صارفین ٹک ٹاک کے ذرئعیے شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے کے لئبے بے ہودہ اور فحش حرکات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ان نام و نہاد سوشئیل ایپلیکیشنز نے لوگوں کی سماجی ذندگیوں کو محدود کر دیا ہے۔ رشتے داروں اور عزیز و اقارب سے میل جول اور ان کے ساتھ تعلق داری مسدود ہو چکی ہے۔ جس کے نتیجے میں قطع تعلقی اور معاشرتی نفرتیں اور کدورتیں عام ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔
ٹک ٹاک کے صارفین میں مردوں سے ذیادہ تعداد عورتوں کی ہے ۔
معاشرے میں ٹک ٹاک سے پھیلتی بے حیائی اور بے راہ روی کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے متعدد بار اس ایپلیکیشن پر پابندی لگانی چاہی لیکن ہر بار سیکولر طبقہ آڑے آ گیا۔
سیکولر طبقہ ٹک ٹاک پر پابندی لگانے کو آزادی اظہار رائے پر پابندی لگائے جانے کے مترادف سمجھتا ہے۔
ٹک ٹاک لوگوں کو اسلام سے متنفر کر رہی ہے چناچہ ہماری نوجوان نسل اسلامی تعلیمات میں عدم دلچسپی کا اظہار کر رہی ہے جس کے واقعات وقتاً فوقتاً رونما ہوتے رہتے ہیں۔
ٹک ٹاک سے پھیلتی بے حیائی کو روکنے کے لئیے کسی مؤثر لاحئہ عمل کی شدید ضرورت ہے تاکہ نوجوان نسل کی فحش حرکات کو محدود کیا جا سکے ۔
ہمارے تعلیمی ادارے جن کو تحقیق و تصنیف کا مرکز و منبع ہونا چاہئبے تھا وہ بھی ٹک ٹاک کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکے ۔ چناچہ تعلیمی اداروں میں ذیر تعلیم طلبہ ٹک ٹاک بنانے میں مصروف عمل ہیں۔
کسی بھی انسان کی جوانی اس کی ذندگی کے اداور میں سب سے قیمتی وقت ہوتا ہے جس میں وہ اپنی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کرتے ہوئے اپنے لئیے بہتر مستقبل کے مواقع پیدا کر سکتا ہے۔ لیکن ہمارے نوجوان اپنے مستقبل سے بے فکر ایسی لغویات میں الجھے دکھائی دیتے ہیں جو قابل فکر اور باعث تشویش ہے۔
قابل غور امر یہ بھی ہے کہ بے راہ روی کے ساتھ ساتھ ہمارے نوجوان بے ادب اور ذیادہ پر اعتماد ہو چکے ہیں جس میں ایسی ایپلیکیشنز کے استعمال کا بہت ہاتھ ہے۔

اپنی صلاحیتوں کے اظہار اور نشو نما , شہرت اور دولت کے حصول کے لئیے ٹک ٹاک کے علاوہ دیگر پلیٹ فارمز موجود ہیں جو ٹک ٹاک سے ذیادہ بہتر ہیں کیونکہ 15 سیکنڈز کی ویڈیو میں کیونکر کسی کی صلاحیتیں اجاگر ہو سکتی ہیں۔
یوٹیوب اور فائیور جیسے پیشہ ورانہ پلیٹ فارمز پہ اپنی صلاحیتوں کو پیشے کے طور اپنا کر معاشرے کا کوئی بھی فرد نہ صرف اپنی صلاحیتوں کا بہتر طور پہ اظہار کر سکتا ہے بلکہ ایک باعزت روزگار بھی حاصل کر سکتا ہے۔
لیکن ہمارے نوجوان بغیر محنت کئیے اور کسی بھی ڈیجیٹل ہنر میں مہارت حاصل کئیے بغیر صرف 15 سیکنڈز کی ویڈیو کے ذرئعیے شہرت اور دولت حاصل کرنے کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔
مغربی ممالک ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کر چکے ہیں چناچہ ان کی تیار کردہ ایسی ایپلیکیشنز کو استعمال کرنے والے ہم ہی ہیں ۔ ہمیں چاہئیے کہ اپنے نوجوانوں میں اس بات کی اہمیت کو اجاگر کریں کہ صرف ٹیکنالوجی کا بے دریغ استعمال شہرت , عزت اور دولت عطا نہیں کر سکتا بلکہ ہمیں ٹیکنالوجی میں خود مہارت حاصل کرنا ہو گی کیونکہ آخر وہ بھی تو ایک نوجوان تھا جس نے ایسی ایپلیکشن کو بنا کر دولت , عزت اور شہرت حاصل کی ۔
دنیا میں اپنے وقار اور معیار کو بلند رکھنے کے لئیے اس امر کی ضرورت ہے کہ تعلیمی اداروں میں ٹیکنالوجی کے جدید پہلوؤں کے متعلق آگاہی دی جائے تاکہ ہمارے نوجوان اس ڈیحیٹل شعبہ ذندگی سے وابستہ ہو کر معاشرے کے باعزت اور باوقار شہری بن سکیں اور خرافات و بے ہودہ حرکات سے باز آ سکیں۔

@alihaiderrr5

Shares: