اردو جو کہ قیام پاکستان سے ہی پاکستان کی قومی زبان بن گئی یا یوں کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ اردو پاکستانیوں کی پہچان بن گئی۔ ایک دور تھا کہ جب پاکستانی اردو بولنے پر فخر محسوس کرتے تھے۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے سکولوں، کالجوں میں شوق سے اردو بولتے اور سیکھتے تھے۔ اس وقت اردو زبان کو بہت اہمیت حاصل تھی اور شاید یہی وجہ تھی کہ ایک وقت میں اردو زبان کو بہت ترقی بھی حاصل رہی۔
اردو زبان کو فروغ دینے میں سب سے زیادہ ہاتھ ہمارے ادیبوں اور شعراء کا ہے جنہوں نے اپنی بے انتہا محنت سے اردو زبان کے لیے کام کیا۔ بے شک یہ ان کی اپنی زبان سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اب یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اردو کو آج بھی اتنی ہی اہمیت حاصل ہے جتنی قیام پاکستان کے وقت تھی؟ کیا باحثیت قوم ہم آج اپنی قومی زبان کا حق صحیح سے ادا کررہے ہیں؟ کیا اپنی زبان کو پیچھے چھوڑ دینے سے اور اسے بھول جانے سے ہم دنیا میں اپنی پہچان بنا پائیں گے؟ ان سب حالات کو دیکھتے ہوئے آخر اردو کا مستقبل کیا ہوگا؟
آج اکیسویں صدی میں اردو زبان کافی حد تک اپنا مقام کھو چکی ہے۔ جہاں صدیوں پہلے اردو بولنے، لکھنے اور سننے کا ذوق زور وشور سے ہوا کرتا تھا آج وہیں بہت سے پاکستانی کو انگریزی بولنے، سننے اور لکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
یہاں تک کہ اگر کوئی بچہ اردو میڈیم اسکول سے تعلیم حاصل کر رہا ہو یا پھر کوئ اردو مضمون میں ڈگری لے رہا ہو تو لوگ انھیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں انھیں اتنی اہمیت نہیں دی جاتی جو سائنسی مضمون پڑھنے والے بچوں کو دی جاتی ہے۔ اس کے علاؤہ آج کے دور میں پڑھے لکھے ماں باپ اپنے بچوں کو کم عمری میں ہی انگریزی زبان سیکھنی شروع کر دیتے ہیں جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ بڑے ہوکر اچھی انگریزی بول سکے۔
یہی وجہ ہوتی ہے کہ بہت سے بچے اپنی مادری زبان سے دور ہوجاتے ہیں اور پھر جب ان کے سامنے کوئی دوسرا اردو بولتا یا لکھتا ہے تو اسے بچے خود سے حقیر سمجھتے ہیں اور یوں معاشرہ بگاڑ کا شکار ہوجاتا ہے۔ جو قومیں اپنی زبان، اپنی ثقافت کو اپنے ہاتھوں کھو دیتی ہیں وہ پھر کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی صرف اور صرف زوال کا شکار ہوتی ہیں۔
بس اب تو ڈر اس بات کا ہے کہ ناجانے اردو کا مستقبل کیا ہوگا؟
زبانیں کاٹ کہ رکھ دی گئی نفرت کے خنجر سے
یہاں کانوں میں اب الفاظ کا رس کون گھولے گا؟
ہمارے عہد کے بچوں کو انگلش سے محبت ہے
ہمیں یہ ڈر ہے مستقبل میں اردو کون بولے گا؟
(فیض احمد فیض)
@SeharSulehri