ذی شعور ذمانے کے باسی ہونے کے باوجود بھی کرہ ارض سے ابھی تک انسان ہزاروں سال سے موجودہ جرائم کو ختم کرنے میں ناکام ہو چکا ہے ۔ شاید یہ انسانی ارتقاء کے ساتھ ساتھ ہمارے اندر موجود رہے جو اب ہمارے رگ و پے میں سما کر ہماری فطرت بن چکے ہیں۔ حالیہ دور میں یہ جرائم ہمارے معاشرے کا ناسور بن چکے ہیں لیکن حالات کچھ ایسے ہیں کہ ان جرائم و مسائل کو جرم تسلیم کرنا تو درکنار ان کی طرف توجہ ہی نہیں دی جاتی کیونکہ ایسے مسائل سے معاشرے کے ہر فرد کا دامن آلودہ ہے۔
چغل خوری , بہتان تراشی , شراب نوشی , جوا , ڈکیتی جسمانی و جنسی تشدد اور رشوت خوری ہمارے معاشرے کے وہ جرائم ہیں جن سے ہمیشہ بےغفلت برتی گئی اور ان کے خلاف کسی بھی ذمانے میں مؤثر اور دیرپا اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ چناچہ یہ مسائل اب ہماری سماجی جڑوں کو کھوکھلا کر کے ہمارے معاشرے کا شیرازہ بکھیر رہے ہیں۔
یہ مسائل ایک دوسرے کے اسباب ہیں ۔ رشوت ستانی مجرم کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کیونکہ مجرم کو اس بات کا ادراک پہلے سے ہوتا ہے کہ اس کو مزاحمت و تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا اور وہ قانون کے جال کو چند نوٹوں کے عوض توڑ کر اپنا تحفظ یقینی بنا لے گا۔ اس سے بے روزگاری ,سماجی کاہلی اور حق تلفی کو فروغ ملتا ہے کیونکہ معاشرے کا غالب اور امیر طبقہ اپنی دولت اور طاقت کے بل بوتے پر غریبوں کا حق غصب کرتا ہے اور ان کے مسائل میں مزید اضافے کا سبب بنتا ہے۔
اگر معاشرے میں پنپتے ہوئے تمام مسائل کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو شاید رشوت خوری کے منفی اثرات میں باقی تمام مسائل کے منفی اثرات پر غالب اور ذیادہ تباہ کن ہوں گے کیونکہ رشوت خوری ہر طرز کے مجرم کی جان بخشی کرتی ہے۔ ڈکیت , غاصب اور متشدد انسان جو مختلف جرائم میں ملوث ہوتے ہیں وہ بے خوف اور بے دریغ جرم سرانجام دیتے ہیں۔
سماج میں موجود منشیات کے عادی افراد ہمارے لئیے المیہ ہیں اور معاشرے کا قابل فکر پہلو ہیں۔ یہ لوگ اپنی ذندگیوں میں مفلوج اور ناکارہ ہوتے ہیں ۔ منشیات کی لت میں مبتلاء ان افراد کو اکثر ریپ کیسز اور ڈکیتیوں میں ملوث پایا گیا ہے۔ منشیات کے عادت کے اسباب میں ذمے داریوں سے فرار , احساس محرومی و کمتری اور غربت قابل ذکر ہیں۔ ان افراد کی بہتر مشاورت سے ان کو معاشرے کا مثبت فرد بنایا جا سکتا ہے لیکن ہمارے ہاں ایسا کوئی واضح طریقہ کار اور لائحہ عمل نہیں ہے جس سے ایسے افراد کو معاشرے میں دوبارہ مثبت فرد کے طور پہ بحال کیا جا سکے۔
ملک میں بڑھتے ہوئے ریپ کیسز اور جنسی تششدد سب سے ذیادہ عام اور تشویشناک ہے ۔ اس حوالے سے ہمارا معاشرہ دو واضح طبقوں میں منقسم ہے ۔ مذہبی طبقے کا مؤقف یہ ہے عورت کی آزادی اور بے پردگی بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دے رہی ہے ۔ دوسرا طبقہ سیکولر ہے جو اس بات کو رد کرتا ہے۔ سیکولر طبقے کے مطابق معاشرے میں ریپ کیسز کی وجہ جہالت ہے۔
وجوہات کی بہتر جانچ کے بعد واضح لائحہ عمل کو اپناتے ہوئے اس جرم کا خاتمہ ممکن ہے۔ اس جرم پر مجرم کو سخت سزا دے کر اور مناسب تعلیم و شعور کو فروغ دے کر جنسی تشدد اور ذنا کو کافی حد تک ختم کیا جا سکتا ہے۔
جھوٹ , دھوکہ دہی , بد دیانتی , بہتان تراشی اور چغل خوری وہ مسائل ہیں جن کا سامنا روزمرہ ذندگی میں معاشرے کے ہر فرد کا ہوتا ہے۔ ان مسائل پر قابل افسوس بات یہ ہے کہ ان مسائل کو مسائل ہی نہیں سمجھا جاتا ۔ دراصل معاشرے میں ایسے مسائل کی بلند شرح ہماری شعوری گراوٹ اور اخلاقی پستی کو ظاہر کرتی ہے۔ چغل خوری , جھوٹ اور مکرو فریب جیسے روزمرہ جرائم کے ارتکاب سے نفرتیں جنم لیتی ہیں اور عزیز و اقارب کے رشتوں میں فاصلوں کا سبب بنتے ہیں۔ معاشرے میں اپنا وقار بلند رکھنے اور سزا سے بچنے کے لئیے ہر انسان جھوٹ اور فریب کا سہارا لیتا ہے۔ ایسے مسائل کو ختم کرنے کے لئیے بہتر اور مؤثر آگاہی اور مناسب تعلیم سے ختم کیا جا سکتا ہے لیکن یہ مسائل قدر ہمارے معاشرے میں سرایت کر چکے ہیں کہ ان کو مکمل طور پہ ختم کرنا نا ممکن ہے۔
جوا اور سٹہ بازی بھی ہمارے معاشرے کے ان جرائم میں شامل ہیں جن کے تدارک کے لئیے واضح قانون اور لائحہ عمل موجود نہیں ہے۔ جوے کے عادی افراد مجرمانہ ذہنیت کے حامل اور کاہل ہوتے ہیں جو اپنی تمام تر جائیداد کو نیلام کر کے داؤ پر لگا دیتے ہیں ۔ جوا بھی شراب کی طرح انسان کو معاشرے کا مفلوج اور ناکارہ فرد بنا دیتا ہے۔ ایک جواری کی روزمرہ ذندگی کے معاملات میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے کیونکہ وہ آسان راستہ اپنا کر دولت کے حصول کا خواہاں ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لئیے ایک جواری اکثر چوری اور ڈکیتی جیسے جرائم کا ارتکاب کرنے سے بھی نہیں کتراتا ۔
معاشرے کو ایسے جرائم سے پاک کرنے کے لئیے اس امر کی ضرورت ہے کہ مناسب قانون سازی کر کے قانون کو متحرک بنایا جائے جو مجرم کو چوری , ڈکیتی , ریپ اور شراب نوشی جیسے جرائم میں ملوث ہونے پر سزا دے ۔ جبکہ دیگر مسائل جیسا کہ جھوٹ , بہتان اور چغل خوری کے تدارک کے لئیے مناسب آگاہی اور تعلیم کی ضرورت ہے۔
@alihaiderrr5