اخلاقیات اور ہمارا معاشرہ تحریر:شعیب خان

0
97


اخلاق کی دولت سے بھرا ہے میرا دامن
گو پاس میرے درہم ودینار نہیں ہیں

لفظ اخلاقیات یونانی زبان کے لفظ اخلاق سے نکلا ہے جس کا معنی ہے کردار اور رواج۔ اسی طرح اخلاقیات سے مراد کسی معاشرے، کسی ادارے کیلٸے اخلاقی اصولوں ،اور اخلاقی اقدار کا نظام موجود ہو

دین اسلام کی پاکیزہ تعلیمات مسلمانوں کواخلاقِ حسنہ کا درس دیتی ہیں، ضعیفوں کا ادب واحترام، چھوٹوں پر شفقت، علماء کی قدر ومنزلت، غریبوں اور بے کسوں کی دادرسی ، اپنوں کے ساتھ محبت والفت اور جذبہ ایثار وہمدردی کا سبق دیتی ہیں

نبی کریم ﷺ کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک اخلاق کا اتمام بھی ہے ۔آپ ﷺ کامل اخلاق کی تکمیل کیلٸے اس جہاں میں تشریف لاٸے ۔ آپﷺ کی حیاتِ مبارکہ کا ایک ایک ورق آپﷺ کے خُلقِ عظیم کا اجلا نقش ہے۔

میرے پیارے مسلمانوں بھاٸیوں!! اخلاق کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، خواہ وہ معاشرہ مہذب ہو یا غیر مہذت ۔اخلاق دنیا کے ہر معاشرے کا مشترکہ باب ہے جس پر کسی کا اختلاف نہیں ،انسان کو جانوروں سے ممتاز کرنے والی اصل چیز اخلاق ہے مگر بدقسمتی سے ہمارا مسلم معاشرہ میں اخلاقیات ، تہذیب و تمدن اور تربیت و تادیب کے آثار ہی ناپید ہوچکے ہیں جس کے باعث آپﷺ کے اخلاق حسنہ سے دوری ہے۔ اسوجہ سے ہمارا معاشرہ رسواء اور زوال پذیر ہو رہا ہے اور بد اخیلاقات ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح ختم کررہی ہے

دین اسلام جس کی اصل پہچان اخلاقیات کا عظیم باب ہے اور جس کی تکمیل کے لئے مُحَمَّد ﷺ مبعوث کیے گئے تھے آج اسی دین اسلام اور آخری نبی کے اخلاق حسنہ کو ماننے والے اخلاقیات میں اس پستی تک گر چکے ہیں کہ ہماری عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار ہے، گلی، محلہ ، جگہ جگہ لڑائی جھگڑا، گالی گلوچ، ظلم و ستم ،بچیوں کے ساتھ زیادتی، فساد، عورتوں پر تشدد ،ماں باپ کی نافرمانی ، کینہ ، جھوٹ ، بہتان تراشی ، غیبت ، قتل و غارت، حسد، حق تلفی اور مفاد پرستی عام ہے۔ منشیات کے بازار، ہوس کے اڈے ، مے خانے ، جوا ، چوری چکری ، ،زنا کاری، رشوت خوری، سود خوری ،حرام خوری، دھوکہ دہی، بددیانتی منافقت ،خوشامد، دوغلے پن، حرص، طمع، لالچ، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی کرنا آخر وہ کون سا اخلاقی بیماری ہے جو ہم سب میں نہیں ۔ خود غرضی اور کرپشن کا ایسا کونسا طریقہ ہے جو ہم سب نے ایجاد نہیں کیا؟ دھوکہ دہی اور مفاد پرستی کی ایسی کونسی اقسام ہے جو ہمارے معاشرے کے زوروں پر نہیں؟

تشدد، تعصب، عصبیت اور انسان دشمنی کے ایسے کونسے مظاہر ہیں جو ہمارے معاشرہ میں دیکھنے کو نہیں ملتے؟ مگر پھر بھی ہم خود پارسا اور مسلمان کہلاتے ہیں ۔۔۔ایسے برے اخلاق و اطوار والی
عوام کا خود کو مسلمان کہلوانا تو دور کی بات ، ہمارے بزرگ کہتے ہیں کہ ایسے میں دین اسلام ، اللہ ﷻ اور آپ ﷺ کا مبارک بھی اپنی ناپاک زبانوں سے لینے کی جسارت نہ کرو اس لیے کہ تم ان کی بدنامی کا باعث بنتے ہو۔

گر نہ داری از محمد رنگ و بو
از زبان خود میسا لا نام او

قارئين!! معاشرہ اکائی سے بنتا ہے ہر فرد معاشرے کا حصہ ہے۔ ہر فرد خود کو نہیں، معاشرے کو بدلنا چاہتے ہیں ہر فرد سمجھتا ہے کہ ہر برائی اور خرابی دوسرے لوگوں میں ہے ، یہ منفی سوچ معاشرے کو اخلاقیات سے گراتی ہے کیونکہ ہر فرد اپنی ذات سے ہٹ کر دوسرے لوگوں میں خامیاں اور برائیاں دیکھتا ہے۔ ہر فرد اپنیٕ ذمے داریوں سے بھاگتا ہے اور اپنی برائیوں اور خاميوں کا جواز پیدا کرتا ہے ۔

اللہ ﷻ ہمیں ہدایت دے آمین!

‎@aapkashobi

Leave a reply