ارے عادتِ بد نگاہی سے خود کو
نگاہِ خدا میں گرائے ہوئے ہو
الله سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی کتاب میں مردوں کو نظر کی حفاظت اور عورتوں کو حجاب کا حکم دیا۔ آج المیہ یہ ہے کہ ہم فتنوں سے بھرپور ایسے دور میں جی رہے ہیں۔ جہاں بے حیائی سرِ عام ہے۔ اور بے حیائی کے نتائج بھی واضح ہورہے ہیں۔ جہاں ایک گروہ کے نزدیک حجاب بوجھ ہے اور حجاب کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے اس دلیل کے ساتھ کہ مرد اپنی نظر کی حفاظت کریں تو دوسرے گروہ کے نزدیک بس عورت کو حجاب پہننا چایے تو بے حیائی کا خاتمہ ہوگا۔ بات یہ ہے کہ جیسے عورت پر حجاب فرض ہے ویسے ہی بلا تفریق مرد پر بھی نگاہیں نیچی رکھنا فرض ہے۔ اور دونوں اپنے اعمال کے لئے الله کے سامنے جوابدہ ہیں۔ تو نظر کی حفاظت فرض ہے۔ آج نظر کی حفاظت کرنا تو بہت دور بلکہ فیشن اور ماڈرن ازم کی طرف لوگوں کو راغب کر کے اس بے حیائی کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔
نظروں کو شیطان کا تیر کہا جاتا ہے۔ یہ شیطان کی طرف سے پہلا حملہ ہوتا ہے جس کے زریعے شیطان انسان کو برائی میں مبتلا کرتا چلا جاتا ہے۔ بد نگاہی کا ہمارے تمام عقائد اور اعمال سے گہرا تعلق ہے یہ بد نگاہی ہی تو ہے جس سے کبیرہ گناہ کی ابتدا ہوتی ہے اگر نگاہیں جھکی رہیں تو دل کا نظام بھی درست رہتا ہے لیکن جیسے ہی یہ نگاہیں آزادانہ اٹھیں دل کے اندر کشمکش شروع ہو جاتی ہے۔ اندر کا تمام نظام تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ دراصل آغاز وسوسوں سے ہوتا ہے۔ شیطان انسان کو کئی کئی وسوسے دلاتا ہے کہ انسان آزادانہ طور پر بد نگاہی کا مرتکب ہو اور جب انسان ایسا کرتا ہے تو پھر دل کے اندر کئی کئی سوچیں آتی ہیں۔اور انسان ان سوچوں کو نہیں جھٹکتا بلکہ انہیں سرکش احساسات میں پروان چڑھاتا ہے اور پھر بد نگاہی کے توسط سے وہ گھناؤنے اعمال بن جاتے ہیں۔ جو گناہِ کبیرہ ہیں۔ پھر انسان مسلسل ان فحش اعمال کا عادی ہو جاتا ہے۔ اور اسطرح انسان گناہوں کی انتہا تک پہنچ جاتا ہے اور کفر میں ایسا پھنس جاتا ہے کہ اکثر واپسی کی راہیں مسدود ہوجاتی ہیں۔

الله جی اپنی کتابِ حبیب میں فرماتے ہیں۔
قُلۡ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ ﴿۳۰﴾
ترجمہ: مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔
(سورہ النور:30)
اس آیت میں نگاہیں نیچی کرنا، ادھر ادھر نہ دیکھنا اور الله کی حرام کردہ چیز کو نہ دیکھنا مقصود ہے (تفسیر ابنِ کثیر)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ نگاہوں کی حفاظت نفس کی پاکیزگی کی ضمانت ہے۔ الله رب العزت نے نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم مشقت کے طور پر نہیں دیا بلکہ یہ الله کی اپنے بندوں پر رحمت ہے۔ یہ آیت دو ٹوک انداز میں بد نگاہی کی مذمت کر رہی ہے۔ احادیث میں بھی اس معاملے میں بہت سی وضاحت موجود ہے۔ الله کے رسول نے نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا ہے ۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ راستوں میں بیٹھنے سے بچو لوگوں نے پوچھا کہ اگر کام کاج کے لئے ضروری ہو تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر راستوں کا حق ادا کرتے رہو۔ لوگوں نے راستوں کے حق کے متعلق پوچھا تو کریم نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا نگاہیں نیچی رکھنا، کسی کو ایذا نہ دینا، سلام کا جواب دینا، اچھی باتوں کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔
(بخاری)

حضرت جریر رضی الله عنہ نے رسول صلی الله علیہ وسلم سے اچانک نظر پڑ جانے کے متعلق پوچھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اپنی نگاہ فوراً ہٹا لو۔
(صحیح مسلم)

نظر کی حفاظت پر الله جی اپنے بندے کو اپنا تقرب دیتے ہیں۔ اسے ایسی عبادت عطا کرتے ہیں کہ انسان بہت لذت محسوس کرتا ہے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جب کسی کی نگاہ عورت کے حسن و جمال پر پڑ جائے اور وہ اپنی نگاہ ہٹا لے تو الله تعالیٰ اس کے بدلے ایک ایسی عبادت عطا فرماتا ہے جس کی لذت وہ دل میں محسوس کرتا ہے۔
(مسند احمد)
بدنگاہی انسان کے لئے بے سکونی کا سبب بن جاتی ہے۔ انسان مایوسی، ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے۔ انسان بے چین رہتا ہے۔ وہ برائی کو پروان چڑھانے کے لئے ابلیس کے ساتھ مشاورت میں مگن ہوجاتا ہے۔ وہ ایک ایسی بے چینی کا شکار ہوجاتا ہے جس کا علاج ناممکن ہے کیونکہ بدنگاہی انسان کے خیالات، جذبات کو منتشر کر دیتی ہے۔ یوں انسان الله کے غضب کو دعوت دیتا ہے۔
ایک نشید کے الفاظ کچھ یوں ہیں۔
بدنگاہی بے سکونی کی وجہ کیسے نہ ہو
بدنگاہی جرم ہے تو پھر سزا کیسے نہ ہو۔

صورتِ جنس مخالف کو مسلسل دیکھنا
غلطیاں آنکھیں کریں دل مبتلا کیسے نو۔

خالقِ دل کی بجائے دل میں رہتے اور ہیں۔
پھر یہ شب بھر جاگنے کا سلسلہ کیسے نہ ہو۔

لب پہ جنت کی دعائیں خوب ہیں لیکن میاں
اتباعِ نفس و شیطاں میں خطا کیسے نہ ہو۔

فتنہِ عشق مجازی دشمنِ ایمان ہے
ہم کریں من مانیاں رب کو پتہ کیسے نہ ہو۔

بندہِ رحمن ہو کر نفس کے تابع ہوئے
نفس کے ماروں کا شیطاں رہنما کیسے نہ ہو۔

چند مٹی کے کھلونوں کو طلب کرنے لگے
پھر انہیں ہدہد موبائل کا نشہ کیسے نہ ہو۔

امام ابنِ قیم لکھتے ہیں کہ زنا کے واقعات کا آغاز نگاہوں سے ہوتا ہے جس نے اپنی نگاہ کو آزاد چھوڑ دیا اس نے اپنے آپ کو ہلاکت کے منہ میں ڈالا۔ انسان تک پہنچنے والی مصیبت اور آفات میں سب سے پہلے نظر کے زریعے ہی مصیبت اور پریشانیاں پہنچتی ہیں۔ جب انسان نظروں کی لاپرواہی کے سبب مصیبت میں پڑجاتا ہے تو پھر اسے سوائے افسوس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا وہ ایسی حالت میں پہنچ جاتا ہے کہ اس پر اسے نہ صبر کرنے کی طاقت ہوتی ہے اور نہ اسے چھوڑنے کی اور یہ انسان کے لئے سب سے بڑا عذاب ہوتا ہے۔
بدنگاہی انسان کے ایمان کی بربادی کا سبب بن جاتی ہے۔ اور بہت سے دیندار لوگ بھی بدنگاہی کی سبب گمراہ ہوجاتے ہیں۔ ایک مؤذن جسے اذان دیتے ہوئے چالیس سال ہوگئے تھے۔ ایک دن اذان دیتے ہوئے اس کی نظر ایک نصرانی لڑکی پر پڑ ی تو دل اور عقل دونوں پر پردے پڑ گئے اذان چھوڑ کر اس لڑکی کے پاس پہنچا اور نکاح کا پیغام دیا۔ وہ لڑکی کہنے لگی میرا مہر تجھ پر بھاری ہو گا گی۔ پوچھا تیرا مہر کیا ہے؟ لڑکی بولی دین اسلام چھوڑ کر نصرانی بن جا (معاذالله) یہ سن کر اس بدنصیب نے مرتد ہو کر عیسائ مذہب اختیار کر لیا۔ نصرانی عورت نے کہا میرا باپ گھر کے سب سے نچلے کمرے میں ہے تو اس سے نکاح کی بات کر لے۔ چنانچہ جب وہ اترنے لگا تو اس کا پاؤں پھسلا اور وہ شادی کی تمنا دل میں لئے ہی مردہ حالت میں مر گیا۔ آپ اس واقعے کو دیکھیں۔ ایک دیندار انسان پر بھی ابلیس کیسے وار کرتا ہے اور "نگاہ اٹھی” اور ایمان کا سودا کر دیا۔
نگاہوں کی حفاظت مشکل کام ہے لیکن الله کا حکم ہے اور معاشرے سے بے حیائی کا خاتمہ بھی ہے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہر آنکھ قیامت کے دن روئے گی مگر وہ آنکھ جو الله کی حرام کردہ چیزوں کے دیکھنے سے بند رہے اور وہ آنکھ جو الله کی راہ میں جاگتی رہے اور وہ آنکھ جو الله کے خوف میں رو دے گو اس میں آنسو صرف مکھی کے سر برابر ہی نکلا ہو۔
@Nusrat_writes

Shares: