پولیس ایک ایسا ادارہ ہے جسے چھوٹے سے لے کر بڑے اور سنگین جرائم جیسے کہ چوری، ڈکیتی، منشیات فروشی، قتل ، زمینوں پر قبضہ اور بھی کئ طرح کے جرائم پر قابو پانے کے لئے بنایا گیا ہے۔پولیس کو مظلوموں کی مدد کرنے کےلئے بنایا گیا ہے ناکہ ظالم انسانوں کے ساتھ مل کر مظلوموں پر ظلم کرنے کےلئے۔
حالات حاضرہ میں جرائم کی بڑھوتری میں خاصی شدت دیکھی گئ ہے۔ آج کل جنسی زیادتی کے کیسز بہت تیزی بڑھ رہے ہیں، چاہے وہ لڑکیاں ہوں یا لڑکے چھوٹی بچیاں ہو یا بچے درندے نما انسان انہیں اپنی حوس کا شکار بنائے ہوئے ہیں جنکو روکنے کےلئے پولیس اور حکومت دونوں فل وقت ناکام ہیں،جو کہ کافی تشویش ناک بات ہے۔حکومت وقت کو فوری طور پر اسلامی قوانین کی روشنی میں ان درندوں کو سزائیں دینی چاہیے۔
معاشرے میں جرائم کے خاتمے کےلئے ضروری ہے کہ پولیس با صلاحیت باکردار قابل اور تربیت یافتہ ہو اسکے برعکس موجودہ دور بالکل مختلف ہے، رشوت کے بازار عروج پر ہیں جو چاہے جس پر چاہے جھوٹا پرچہ کروا سکتا ہے جسکو چاہے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل سکتا ہے ضرورت ہے تو صرف پیسے کی، رشوت دیں اور اپنا کام نکلوائیں کلچر بہت آگے نکل چکا ہے جسے روکنا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
اگر کوئ غریب مظلوم تھانے میں اپنی فریاد لے کر انصاف کی خاطر جاتا ہے تو پہلے تو اسے کئ چکر لگانے پڑتے ہیں منتیں کرنی پڑتی ہیں پھر جا کر اسکی سنوائ ہوتی ہے لیکن اس میں بھی پولیس بد دیانتی سے بعض نہیں آتی دوسری پارٹی کے ساتھ مل کر مظلوم کی آواز دبا دی جاتی ہے اور ظالم لوگوں کو پیسے کے دم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
طلباء پر جھوٹی ایف آئ آر دے کر انکا کیریئر تباہ کر دیا جاتا ہے ،جھوٹے انکاؤنٹر میں مظلوموں کو قتل کر دیا جاتا ہے، عام لوگوں کے ساتھ ناروا رویہ اختیار کیا جاتا ہے اور سیاسی ملی بھگت سے سیاسی انتقام لئے جاتے ہیں۔ علاقے کے ایم این اے اور ایم پی اے کے ساتھ مل کر بے گناہ لوگوں پر پولیس کی جانب سے ظلم کروائے جاتے ہیں
پولیس کے ادارے کو شفاف بنانے کےلئے مکمل طور پر اس میں سے سیاسی مداخلت کرنی ہوگی
تبھی جا کر ملک خوش ہوگا۔ سانحہ ساہیوال ، سانحہ ماڈل ٹاؤن ،صلاح الدین کا پولیس کی حراست میں بے رحمی سے قتل اور نقیب اللہ محسود جیسے کئ اور واقعے پولیس کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اگر پولیس کا نظام بدلنا ہے تو پہلے ان میں انسانیت پیدا کی جائے ۔
جو ریاست مجرموں پر رحم کرتی ہے وہاں کے بے گناہ لوگ بڑی بے رحمی سے مرتے ہیں
حضرت عمر فاروق کنزالاعمال ۸/۱۳۸
جب پولیس میں کسی شخص کو بھرتی کیا جاتا اسکو لڑنے کی ،مارنے کی، اسلحہ چلانے کی ، اور مشکل حالات سے نمٹنے کی ٹریننگ تو دی جاتی ہے لیکن انکو اخلاقیات، پیار ، محبت اور لوگوں سے سلیقے کے ساتھ بات کرنے کی تربیت نہیں دی جاتی۔
اگر پولیس عام لوگوں کے ساتھ بہتر رویے سے پیش نہیں آئے گی انکے مسائل نہیں سنے گی تو عوام کے دِلوں سے انکےلئے جو عزت ہے وہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہوجائے گی۔ عوام پولیس سے محبت تب کریگی جب پولیس عوام سے کریگی۔
جن پولیس والوں کی تربیت نہیں ہو سکتی انکو گھر کا راستہ دکھایا جائے اور انکی قابل ایماندار اور محنت کش لوگ بھرتی کئے جائیں۔
پولیس کو بہترین ٹریننگ کے ساتھ اخلاقیات کی تربیت بھی دینی چاہیے تاکہ عوام کے دلوں میں انکےلئے محبت اور جزبہ بڑھے ، رشوت خوری کے نظام کو ختم کرنے کےلئے پولیس کی تنخواہیں بھی بڑھائ جائیں۔
معطل کرنے والا سسٹم بھی بند ہونا چاہیے جو شخص بھی قصور وار ہو عام عوام کی طرح اسے سزا بھی ملنی چاہیے اور نوکری سے بھی نکالا جائے تاکہ آئندہ کوئ جرم نا کر سکے۔
ہمارے معاشرے میں برے لوگوں کے ساتھ ساتھ نیک لوگ بھی موجود ہیں جوکہ بڑی ایمانداری سے اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ اچھے لوگ بھی برے لوگوں کی وجہ سے بدنام ہو رہے ہیں۔
ہمارے تمام محکوموں میں جو بھی اچھا کام کر رہیں انہیں پوری قوم کا سلام۔ اللہ پاک ہم سبکو نیکی کے راستے پر چلنے اور مظلوم کی مدد کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
@SyedAwais_








