حضرت عمر فاروق ؓ عشرہ مبشرہ میں سے ایک صحابی رسولﷺ ہیں جو مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ ہیں آپ کی پیدائش مکہ مکرمہ میں 583ہجری میں ہوئی۔
نام۔ عمر
والد کا نام۔ خطاب
والدہ کا نام۔ خنتمہ
جو ہشام بن مغیرہ کی بیٹی تھیں
ابو بکر صدیق ؓ کی وفات کے بعد 22 جمادی الثانی سنہ 13ہجری کو مسند خلافت پر فائز ہوئے، آج بھی عمر بن خطاب ؓ ایک انصاف پسند عادل حکمران تسلیم کیے جاتے ہیں۔ سیدنا حضرت عمر فاروق ؓ رض تاریخ اسلام کی وہ نامور شخصیت ہیں جو بہادری کی وجہ سے اسلام کے قبول کرنے سے پہلے ہی مشہور تھے۔ امام ترمذی رحمة اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ آپ کی اسی وجہ سے حضرت محمدﷺ نے بحضور الٰہی التجا کی کہ اے اللہ! عمر بن خطاب یا عمر بن ہشام میں سے اپنے پسندیدہ بندے کے ذریعے اسلام کو غلبہ عطا فرما۔ اللہ رب العزت نے حضرت محمدﷺ کی دعا قبول کی اور سیدنا عمر بن خطاب ؓ کے ذریعے اسلام کو عزت دی۔ آپ ؓ کے قبول اسلام سے قبل مسلمان مشرکین قریش سے چھپ کر عبادت کیا کرتے تھے لیکن جب آپ ؓ نے اسلام قبول کیا تو آپ نے اعلان کیا کہ آج سے مسلمان اپنی عبادات علی الاعلان کریں گے۔
عبداللہ بن مسعود ؓ روایت کرتے ہیں کہ:”بے شک سیدنا عمر ؓ کا قبول اسلام ہمارے لئے فتح تھی۔ خدا کی قسم ہم بیت اللہ میں نماز پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے مگر حضرت عمر ؓ کی وجہ سے ہم نے مشرکین کا مقابلہ کیا اور خانہ کعبہ میں نمازیں پڑھنا شروع کیں۔”
اسی دن سے سیدنا عمر ؓ کا لقب فاروق رکھ دیا گیا یعنی حق وباطل میں فرق کرنے والا۔ آپ کو لقب فاروق اور کنیت ابو حفص دونوں حضورﷺ نے عطا کیے ہیں۔
ہجرت کے وقت کا واقعہ:
کفار مکہ کے شر سے بچنے کے لیے سب نے خاموشی سے ہجرت کی مگر آپ کی غیرت ایمانی نے چھپ کر ہجرت کرنا گوارہ نہ کی۔
آپ نے تلوار ہاتھ میں لی اور کعبہ کا طواف کیا پھر کفار سے مخاطب ہو کر فرمایا تم میں سے کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی بیوہ اور اس کے بچے یتیم ہو جائیں تو وہ مکہ سے باہر آ کر میرا راستہ روکے، مگر کسی کو ہمت نہیں ہوئی کہ وہ راستہ روک سکے۔
قبول اسلام کے بعد آپ کا حضور ﷺ سے ایسی محبت تھی کہ جس کی مثال کہیں نہیں ملتی ہے ایک مرتبہ ایک مسلمان اور یہودی کے درمیان تنازع پیدا ہو گیا اس تنازع کے حل کے لیے وہ دونوں حضور حضور ﷺ کے سامنے پیش ہوئے حضور ﷺ نے دلیلوں کی بنیاد پر یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا مگر وہ مسلمان اس فیصلے پر مطمئن نہیں ہوا تو اس نے سوچا کہ یہ مقدمہ حضرت عمر فاروق کے پاس لے جاتا ہوں وہ اسلام کی وجہ سے ہمارے حق میں فیصلہ کر دیں گے مگر جب آپ کو معلوم ہوا کہ اس مقدمے کا فیصلہ پہلے سے حضور ﷺ کر چکے ہیں، تو فوراً تلوار اٹھائی اور اس مسلمان کا سر قلم کر دیا جس مسلمان نے حضور ﷺ کا فیصلہ ماننے سے انکار کیا تھا
رسول اللہﷺ نے حضرت عمر فاروق ؓ کو مخاطب کر کے فرمایا۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے آپ جس راستے پر چلتے ہیں شیطان وہ راستہ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے
آپؓ کے دسترخوان پر کھبی دو سالن نظر نہیں آئے آپؓ سر کے نیچے اینٹ رکھ کر خالی زمین پر بھی سو جاتے تھے۔ آپ کے کپڑے میں چودہ پیوند لگے ہوئے تھے
ایک مرتبہ عمر فاروقؓ مسجد میں منبر رسولﷺ پر کھڑے ہو کر خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران ایک بندہ کھڑا ہوا اور کہنے لگا ” اے عمرؓ ہم تیرا خطبہ نہیں سنیں گے جب تک آپ ہمیں یہ نہ بتاؤ کہ یہ جو تم نے کپڑے پہنے ہوئے ہیں یہ کپڑا آپ کے پاس زیادہ کہاں سے آیا حالانکہ جو بیت المال سے لوگوں میں تقسیم ہوا وہ تو کم تھا تو اس وقت حضرت عمر فاروقؓ نے کہا کہ مسجد میں میرا بیٹا عبداللہ موجود ہے تو فوراً عبداللہ بن عمرؓ کھڑے ہو گئے تو اس وقت حضرت عمر فاروقؓ بولے بیٹا بتاؤ تیرے باپ نے یہ کپڑا کہاں سے لایا ہوں ورنہ میں کھبی بھی اس منبر رسولﷺ پر کھڑا نہیں ہوں گا پھر ان کے بیٹے عبداللہ بن عمر فاروقؓ نے بتایا کہ بابا جان کو جو کپڑا ملا تھا وہ بہت کم تھا اس سے ان کے پورے کپڑے تیار نہیں ہو سکتے تھے اور ان کے پاس پہننے والا لباس بہت خستہ حال ہو چکا تھا۔ اس لیے میں نے اپنا کپڑا اپنے والد محترم کو دیا
جن کے بارے میں کفار اعتراف کرتے ہیں کہ اسلام میں اگر ایک عمر اور آتا تو آج پوری دنیا میں صرف اسلام پھیلا ہوتا۔
آپﷺ نے حضرت عمر فاروق کے بارے میں فرمایا تھا میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر فاروقؓ ہوتا
27 ذی الحجہ کو
خلیفہ دوم حضرت سیدنا عمر فاروق ؓ کو نماز فجر میں خنجر سے زخمی کیا گیا،
جو 4 دن بعد یکم محرم کوجام شہادت نوش فرماگئے۔
Shares:








