میری یہ تحریر ہمارے معاشرے کے برائے نام مسلمانوں کے لئے ہے۔ کیونکہ ہم صرف نام کے مسلمان ہو کر کردار کا کفر کر رہے ہیں۔
پاکستان میں 95% سے زیادہ لوگ مسلمان ہیں۔ صرف پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جہاں پر ہر مذہب ہر انسان کو کچھ بھی کرنے کی آزادی ہے اور یہ آزادی انسان کو اسلام سے ملی ہے۔
میں آج آپ سب کے ساتھ کچھ تلخ حقائق پر بات چیت کرنا چاہوں گی جو کہ ہمارے معاشرے کا سیاہ چہرہ ہے اور ہم اپنی اگلی نسل کو ورثے میں ایسا معاشرہ دے رہے ہیں۔
ہر انسان وہ کام کر رہا ہے جس کو اسلام میں منع فرمایا گیا ہے جیسا کہ:
• اب ہر دوسرے دن قتل ہو رہا ہے کبھی بچوں کا، کبھی بڑوں کا اور کبھی عورتوں کا۔
• لڑائی جھگڑے عام ہیں۔
• • گانے بجانے اور رقص و سرور کی محفلیں غیر معیوب ہو چکی ہیں۔
میڈیا کے ذریعے نازیبا اور فحش مواد گھر گھر تک پہنچ چکا ہے۔
• عورت کا مطلب ہے پردہ میں مخفی چیز۔۔۔ مانا کہ اگر مجبوری ہو تو عورت کو ملازمت کرنی چاہیے جس کی اسلام میں اجازت ہے۔
• لیکن جہاں اسلام نے عورت کو عزت دی ہے وہ سب اسلام کے نام نازیبا لباس پہن کر میڈیا پر آتی ہیں ناچ گانا کر رہی ہیں۔ مردوں کے ساتھ تعلقات عام ہیں۔ پردے کا نام و نشان نہیں ہے یہاں تک کہ کپڑے ہی مکمل نہیں ہوتے۔
اور یہی حال مردوں کا بھی ہے وہ سب بھی اسی طرح عورت کے ساتھ مل کر میڈیا پر ناچ گانا کر رہے ہیں ہر وہ کام کر رہے ہیں جس سے منع فرمایا گیا ہے۔
• ہم سب کو اسلام میں بیہودہ چیزیں دیکھنے سننے اور کرنے سے منع کیا گیا ہے لیکن ہم وہ سب دیکھتے سنتے اور کرتے ہیں۔
• اسلام میں زنا شراب نوشی یہ سب چیزیں حرام ہیں۔ لیکن یہ سب ہورہا ہے۔ اسلام میں سختی سے کہا گیا ہے کہ تم زنا کے قریب بھی نہ جاؤ لیکن انسان اتنے جاہل اور ان پڑھ ہو چکے ہیں کہ اسلام کو بھلا چکے ہیں۔
• اگر تمہیں کوئی پسند ہے تو تم زنا کی بجائے اس سے نکاح کرو۔ پاکیزہ رشتہ اختیار کرو۔
• لیکن انسان ہمیشہ برائی کا راستہ اپناتا ہے۔
• اسلام میں یہ گالم گلوچ، جھوٹ بولنا، نا انصافی کرنا، گانے سننا، ایک دوسرے کے ساتھ برا سلوک کرنا، حسد کرنا، غریب لوگوں کا احساس نہ کرنا، بڑوں سے بدتمیزی کرنا، چھوٹوں کا خیال نہ رکھنا، بچوں کے ساتھ ریپ کرنا، دوسروں کی عزت کو داغدار کرنا، دوسروں کی بہنوں بیٹیوں کا خیال نہ کرنا، اور کچھ عورتوں کا کسی کے بھائی بیٹے کا خیال نہ کرنا۔
یہ سب اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہورہا ہے کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ سب کام ہم مسلمان ہوتے ہوئے کر رہے ہیں۔ ہم بس نام کے ہی مسلمان رہ گئے ہیں۔
اگر کوئی ناموس رسالت (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پر کچھ بول دیں تو اس وقت لوگوں کا ایمان جاگتا ہے۔
نبی کیلیے سب لڑتے ہیں، جھگڑتے ہیں، مرتے ہیں۔ لیکن عمل نہیں کرتے تو کس حیثیت سے مسلمان کہلاتے ہیں سب جب کوئی عمل نہیں کچھ نہیں
مجالس میں ہزاروں عاشقانِ رسول اور عزادارانِ حسین ہوتے ہیں لیکن نماز کے لئے ایک صف بھی مشکل سے مکمل ہوتی ہے۔ بچے 10 سال کے ہو جائیں پھر بھی نہ انہیں نماز آتی ہے اور نہ ہی پڑھتے ہیں۔ ان سب کو خیال ہی نہیں کہ نماز اسلام کا سب سے اہم رکن ہے۔ قبر میں نماز کے بارے میں سب سے پہلے سوال کیا جائے گا۔
کیا یہ سب ہوتے ہوئے اسلامی نظام اور اسلامی معاشرہ کہنے کے قابل ہیں ؟ کیا ان سب کو انسان کہنے کے قابل ہیں۔
میں یہ سب لوگوں کو نہیں کہہ رہی ہوں۔ یہ سب میں انکو کہہ رہی ہوں، ان کے بارے میں لکھ رہی جو یہ سب کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ ہیں جو بہت اچھے ہیں، نماز کے پابند ہیں اور اسلامی تعلیمات پر چلتے ہیں۔
یہ میری تحریر صرف ان لوگوں کیلیے ہے جو اس معاشرے کو بگاڑ رہے ہیں۔ اور ان کو کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ ہر چیز کے بارے میں قانون رائج ہونا چاہیے اور بروقت سزا دینی چاہیے تاکہ برائیوں کا خاتمہ ہوسکے۔
میرا اس تحریر کو لکھنے کا مقصد یہ ہے ہم سب مسلمان اپنے آپ کو پرکھیں، اپنا جائزہ لیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا کر رہے ہیں؟ اور کس طرح سے کر رہے ہیں؟ کیونکہ ایک انسان اپنے آپ کو جانتا پہچانتا ہے اور اپنے آپ کو ٹھیک کر سکتا ہے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو نیک سیرت والا بنائے، سیدھے راستے پر اور نبی کی تعلیمات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین ثمہ امین
Twitter id: @InvisibleFari_








