جب 14 اور 15 اگست 1947ء کو پاکستان اور بھارت نے برطانیہ سے آزادی حاصل کردی اور دو نئے خود مختار ریاستیں وجود میں آئیں تو برصغیر میں موجود ریاستوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ پاکستان اور بھارت میں کسی بھی ملک کے ساتھ اپنی خواہش سے شامل ہو جائے۔ تو کشمیر ایک مسلمانوں کا اکثریتی آبادی والا ریاست تھا مگر اس کے مہا راجہ ہندو تھے اس راجہ نے وقت پر فیصلہ نہیں کیا اور 26 اکتوبر 1947ء کو مہا راجہ نے کشمیر کے لوگوں سے رائے لئے بغیر بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دئے جس پر کشمیر کے مسلمانوں نے مہا راجہ کے خلاف بغاوت کردی۔ اس بغاوت کو کچلنے کیلئے بھارت نے 27 اکتوبر 1947ء کو کشمیر کی وادی میں فوج اتار دی۔ کشمیر میں موجود بھارت سے آزادی کے حامیوں کے ساتھ پاکستان نے بھی اظہار یکجہتی کی اور پاکستان کے قبائلی علاقوں سے نوجوانوں نے کشمیر میں بھارت کی فوجی قبضے کے خلاف مزاحمت میں حصہ لیا۔ یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلی جنگ تھی۔

پاک بھارت جنگ کو روکنے کیلئے اقوام متحدہ نے 5 فروری 1948 کو ایک قرار داد پیش کی جس میں کہا گیا کہ کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے اور کشمیریوں کی مرضی کے مطابق ان کے مستقبل کا فیصلہ اس رائے شماری پر کیا جائے۔ یکم جنوری 1949 کو اقوامِ متحدہ نے جنگ بندی کراتے ہوئے دونوں ممالک کی فوجوں کو جنگ بندی لائن کا احترام کرنے کا پابند کیا اور کشمیر میں رائے شماری کرانے کا اعلان کیا جو 1947ء سے لے کر آج تک وہ رائے شماری نہیں ہوئی۔ بھارت نے 26 جنوری 1950ء کو بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 کا اضافہ کیا اور کشمیر کو ایک خصوصی حیثیت کا درجہ دیا جس کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کو دفاع، خارجہ اور مواصلات کے علاوہ خود مختار حیثیت دی گئی۔ آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی اور منفرد مقام حاصل ہوا یہ آرٹیکل ریاست کو آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتا ہے جس کے تحت ریاست کا اپنا آئین تھا اور اسے خصوصی نیم خودمختار حیثیت حاصل تھی۔

1954ء کے صدارتی حکم نامے کے تحت آرٹیکل 35 ‘اے’ بھارتی آئین میں شامل کیا گیا جو مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو خصوصی حقوق اور استحقاق فراہم کرتا تھا۔ اس آرٹیکل کے مطابق صرف مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والا شخص ہی وہاں کا شہری ہو سکتا تھا۔ آرٹیکل 35 ‘اے’ کے تحت بھارت کی کسی اور ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خریدنے اور مستقل رہائش اختیار کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ اس کے تحت مقبوضہ کشمیر کی حکومت کسی اور ریاست کے شہری کو اپنی ریاست میں ملازمت بھی نہیں دے سکتی۔

بھارت نے 5 اگست 2019ء کو ایوان بالا میں کشمیر کے خصوصی اختیارات والے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کرنے کی تجویز پیش کی۔ مودی حکومت اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے یہ ترمیمی بل پیش کیا گیا جس پر صدر نے دستخط کرکے منظور کردیا۔ اس ترمیمی بل کے مطابق بھارتی حکومت نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ کیا اور ریاست جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں کا درجہ دے دیا۔ مودی حکومت نے اس یکطرفہ اقدام سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا قانون آرٹیکل 370 اور ریاستی درجہ ختم کر دیا۔

کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی اقدام کی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی مذمت کی ہے۔ بھارت کے اس فیصلے کی مقبوضہ کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت دیگر رہنماؤں نے بھی مخالفت کی ہے اور اکثر کشمیر کے سیاسی رہنما بھارتی حکومت سے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو اپنے اصلی حالت میں بحال کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے دو سال مکمل ہونے پر 5 اگست 2021ء کو حریت پسند رہنما سید علی گیلانی نے بھارتی حکومت کے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کی برپور مذمت کی۔ حریت کانفرنس کے اعلان پر آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے دو سال مکمل ہونے پر مقبوضہ وادی میں 5 اگست 2021ء سے 15 اگست 2021ء تک عشرہ مزاحمت منایا جا رہا ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے 2 برس مکمل ہونے پر 5 اگست 2021ء کو پاکستان بھر میں یومِ استحصالِ کشمیر منایا گیا، اس سلسلے میں آزاد کشمیر سمیت پاکستان بھر میں بھارت کے مظلوم کشمیریوں پر ظلم و جبر اور آرٹیکل 370 اور 35 اے میں ترمیم کے خلاف احتجاج کیا گیا اور ریلیاں نکالی گئی۔

Twitter: ‎@RealYasir__khan

Shares: