اچھی حکمرانی کے لیے قانون کی حکمرانی کو مضبوط کرنا اور سستہ انصاف تک رسائی کو یقینی بنانا ضروری ہے ، خاص طور پر ان غریبوں کو جو بااثر لوگوں کے ہاتھوں آئے دن ہراساں ہوتے ہیں.
اور بنیادی حقوق سے محروم ہو جاتے۔ جہاں قانون کی حکمرانی نہیں ہوتی وہاں غریب کو بنیادی حقوق نہیں ملتے اور غریب لوگ اپنے آپکو کمزور محسوس کرتے ہیں ، اور ان کا حکومتی اداروں سے بھروسہ ختم ہوجاتا پھر اپنے جایز کام کرانے کے لئے مجبوران غریب لوگوں کو رشوت جیسی لعنت کا سہارا لینا پڑتا۔
ہمارے عدالتوں میں ججز کی تقرريوں کا نظام ناقص ہے اگر ہم بات کریں اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی بھرتی کا تو ہمیں ميرٹ کہیں پر بھی نظر نہیں آتا اس بات کا جائزہ لینے سے پتا چل جاتا ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی پارٹیاں ميرٹ کی دهجیاں اڑاتی ہے۔ ان پارٹیوں کے مداخلت کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے وکلا ونگزکے لوگ یا سیاسی رہنمائوں کے ذاتی وکیل ججز بنا دئیے جاتے ہے۔ پھر انکے بڑے بڑے چیمبرز لا فرمز اور چند خاندانوں کے لوگ ججز بنائے جاتے ہے۔ یہ پارٹیاں ميرٹ کے آگے دیوار کی طرح حائل ہو جاتی ہیں۔ اگر صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو یہ سیاسی پارٹیاں ميرٹ کا مذاق اڑا رہی ہوتی اور انکا کوئی پرسان حال نہیں۔
ملک کے اندر حقیقی میرٹ صرف competitive امتحان کے ذریعے قایم رہتا ہے۔ ریاست کے باقی اداروں میں بھی بھرتیاں مقابلے کے امتحان کے ذریعے ہوتی ہیں۔ انتظامی افسران تو سخت امتحانی مقابلہ CSS, PMS اور PCS کے امتحان سے گزر کر آتے ہیں۔آنے کے بعد وہ کیا کرتے ہیں وہ ایک علیحدہ بحث ہے پھر کسی دن ان کے کارکردگی اور نااہلی پہ روشنی ڈالنے کی کوشش کر لونگا آج فوکس عدلیہ پہ ہے اب اگر ديگر اداروں میں یہ نظام ہے تو پھر عدلیہ میں بھرتیوں کے لئے مقابلے کا امتحان کو رائیج کیوں نہیں کیا جاتا ہے۔
ریاست کے سب سے اہم ادارہ جیس کا کام ہے قانون کی بلادستی کو قائم کرنا اور انصاف کی فراہمی ہے اتنے اہم ادارے میں ميرٹ کا نہ ہونا ایک سوالیہ نشان ہے ۔
میری دانست میں عدلیہ میں میرٹ کا تنازع اس وقت تک حل نہیں ہوگا جب تک جج صاحبان competitive امتحان کے ذریعے بھرتی نہیں کئے جائیں گے۔ اس لئے بہت ضروری ہے کہ ہائی کورٹس کے ججوں کی بھرتیاں مقابلے کے امتحان کے ذریعے کی جائیں تاکہ ميرٹ کا بول بالا ہو ۔
یہ ضروری ہے کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے یہ کا م باآسانی کیا جا سکتا ہے ۔ اس سے بھی بہتر حل یہ ہے کہ ہائی کورٹ میں وہ ججزلگایں جائے جو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ میں اور سیشن کورٹس میں مقابلے کے امتحان کے ذریعے براہ راست بھرتی ہوتے ہیں پھر انکو سینیارٹی کی بنیاد پر لگائے جائیں۔ اس طریقہ کار کو فولو کرنے سے ایک فائدہ یہ ہو گا کہ ہائی کورٹ کے جج صاحبان کو ماتحت عدلیہ میں کام کا تجربہ بھی ہوگا جو موجودہ طریقہ کار میں بہت کم ججوں کے پاس ہوتا ہے۔
ماتحت عدلیہ میں کام کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں میں بہت سے کمی رہ جاتی ہے۔
ميرٹ پہ برتیاں نہ ہونے سے انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ عدالتی فیصلوں میں سیاسی عنصر نظر اتا ہے لاہور ہائی کورٹ کے بہت سارے کسیز کا رزلٹ ہمارے سامنے ہیں اب ضروریاس امر کی ہے کہ ميرٹ کو فولو کیا جائے اس سے یہ ہوگا کہ عدالتی نظام میں اسے جج صاحبان سامنے آئیں گے جو اپنے دم پر اور اپنی محنت پر مقابلہ کر کے جج بنیں گے۔چونکہ انکی نوکریا ں کسی کی مرہون منت نہیں ہونگی، اسلئے انکا انصاف فراہم کرنے کا معیار بھی بہت بلند ہوگا۔
ہماری عدلیہ کی کار کردگی یقینی طور پر اطمینان بخش نہیں ہے انصاف کی فراہمی میں ہمیشہ تاخیر ہو جاتا ہے ۔ غریب عوام عدالتوں کے چکر لگا لگا کر تھک جاتے مگر انصاف ہے کہ ملتا ہی نہیں عام طور پر یہ کہاں جاتا ہے کہ ایک عام سی کیس کو حل کرنے میں ہماری عدالتوں کو تین سال لگ جاتے ہیں۔
عدلیہ کی ایک یہ بھی ناکامی ہے کہ اس نے استغاثہ اور پولیس کو کھلی چھٹی دے رکھی ہوتی جو سیاسی ایما پر کسیز پہ اثر انداز ہو جاتے ہیں اور اگر کسی طاقتور کا کیس ہو تو انویسٹگیشن پر بھی انکا کنٹرول ہوتا پھر غریب کو انصاف ملتا ہی نہیں یہ عدلیہ کی نااہلی کی علامت ہے۔ اگر عدلیہ کے اوپر کام کا بوجھ زیادہ ہے تو اسے عدالتی نظام میں اصلاحات لانے چائے۔ اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا چائے۔
اگر ججز کے پاس کیسز زیادہ ہے تو اضافی ججز کو تقرر کرنا چائے۔ تاکہ کیسز کو جلد از جلد نمٹایا جاسکے۔
ان تمام عوامل کی حوصلہ شکنی کرنا چائے جو فضول میں کیسز کو بار بار التوا کا شکار بنادیتے ان افراد پر بھاری جرمانے کر کے قانونی چارہ جوئی کرنی چائے تاکہ جلد از جلد انصاف کی فراہمی ممکن ہو۔
ججز کو لکھنے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
دلائل اور زبانی دلائل کے لیے وقت محدود کرنا چائے ۔ تمام عدالتی کارروائیوں کی نقلیں اور انہیں تمام فریقین کے لیے دستیاب کرانے سے وقت کا ضیاع کم ہو جائے گا۔
جھوٹے وجوہات کے بنیاد پر بنے معمولی تنازعات کو سمری کے طریقہ کار کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔
سول ، فوجداری اور تجارتی مقدمات الگ الگ
عدالتوں میں حل کرنا چائے نیز ان عدالتوں میں ججز کی تقروریاں ان کی متعلقہ مہارت اور جج کے تجربے کی بنیاد پر ہونی چائے۔
توہین عدالت کے قوانین کو ختم کرنا چائے کیوں کہ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر ججز اسکو ذاتی مفاد کے لے استعمال کرتے ہیں۔
عدلیہ کو چائے کہ باقاعدہ مانٹرنگ کریں اور ماتحت عدالتوں کے کارکردگی کی نگرانی کریں اور ان کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں شکایات کو سنے اور تحقیقات کریں اور پھر سالانہ رپورٹوں کی شائع کریں تاکہ عوام کو انصاف ہوتا ہوا نظر آجائے۔ پاکستان کے عدالتی نظام میں بہت ساری اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ غریب عوام کو سستہ انصاف مل جائے اور ملک میں عدل وہ انصاف کا بول بالا ہو ۔ اور ضروری ہے کہ ملک کے اندر امیر اور غریب کے لئے ایک ہی قانون ہو جیس ملک میں غریب کے لئے الگ قانون ہو اور امیر کے لئے الگ قانون ہو وہاں انصاف کا نظام تباہ ہو جاتا ہے۔
پاکستان کے عدالتی نظام کے اندر اصلاحات کی اشد ضرورت ہے موجودہ نظام انصاف فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے مگر اصلاحات کے ذریعے اس میں بہتری کی گنجائش موجود ہے ۔

‎@I_MJawed

Shares: