مصطفی‏‎ﷺ کے نام کی جاگیر پاکستان ہے تحریر:صائمہ ستار.

0
62

پاکستان کا مطلب کیا؟”لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللہُ“
دستورِ ریاست ہوگا بس محمدﷺرسول اللہ

قیامِ پاکستان بِلا شُبہ قدرت کے معجزات میں سے ایک ہے. 1857 ءسے چھائ غلامی کی تاریک رات کی روشن صبح 27 رمضان المبارک 14 اگست 1947ء کو لاکھوں شہداء کے خون سے طلوع ہوئ. یہ اللہ تعالیٰ کے چُنے ہوئے مُجاہد "محمد علی جناح” کی 40 سالہ ان تھک جدوجہد کا ثمر تھا .یہ اقبال کے خواب کی تعبیر تھا. آزادی کی اس مبارک جدوجہد کی بنیاد میں عظیم قائد کا نظریہ ”لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللہُ“  تھا.قیامِ پاکستان سے قبل ایک موقع پر فرمایا
"مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرزِ حکومت کیا ہوگا؟یہ تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں؟مسلمانوں کا طرزِ حکوت آج سے 1300 سال پہلے قرآن مجید نے واضح طور پر بیان کر دیا تھا. الحمدللہ قرآن مجید ہماری رہنمائ کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا.” قیامِ پاکستان کے بعد بھی متعدد مواقع پر آپ نے مختصر مگر جامع انداز میں یہ واضح کیا کہ نظریہ پاکستان سراسر نظریہ اسلام ہے. ایک موقع پر آپ نے فرمایا
"ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں”.
اسی طرح ایک اور موقع پر اسلام کے اس
مردِ مجاہد نے فرمایا
"پاکستان کے مطالبے کی وجہ نہ ہندوؤں کی تنگ نظری تھی نہ انگریزوں کی چال. یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا.” اسلامیہ کالج پشاور میں تقریر کے دوران فرمایا” اسلام ہماری زندگی اور وجود کا بنیادی سر چشمہ ہے”.آپ نے قومیت کی بنیاد کلمہ توحید کو قرار دیا. فرمایا "مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمہ توحید ہے۔ نہ وطن ہے‘ نہ نسل ہے”.راہنماہِ کامل سیدنا محمد مصطفی‎ﷺ کے اسوہ حسنہ کے مطابق مکمل طور پر اسلامی نظام کا قیام محمد علی جناح کا مقصد تھا. جسکا اظہار آپ نے ان الفاظ میں فرمایا
”میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اُسوہ حسنہ پر چلنے میں ہے، جو ہمیں قانون عطا کرنےوالے پیغمبرِ اسلام‎ﷺ نے ہمارے لئے بنایا ہے۔ ہمیں چاہئیے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پررکھیں۔“
آپکے یہ تمام فرامین یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ آپکی جہدوجہدِ مسلسل کا مقصدِ اولین اسلامی قوانین کے مکلمل نفاذ کے ساتھ ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تھا. افسوس کہ عظیم قائد کو زندگی نے اتنی مہلت نہ دی کہ وہ اپنی جدوجہد کے ثمر کو مکمل نظامِ مصطفی‎ﷺ میں ڈھلتا دیکھتے. وطنِ عزیز کی بہتری کی ہزاروں اُمنگیں سینے میں لیے مردِ مجاہد بہت جلد ابدی سفر کی طرف روانہ ہو گیا.وفات سے قبل آپ نے اپنے معالج سے فرمایا کہ
"پاکستان ہرگز وجود میں نہ آتا، اگر اس میں فیضانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شامل نہ ہوتا“۔ اس ایک فرمان سے آپ نے اس راز کو عیاں کردیا کہ قیامِ پاکستان مکمل طور پر سیدنا محمد مصطفیﷺ کی عطا ہے. آپ ﷺ کی نظرِ رحمت اور فیضان آزادی کی جدوجہد کی تمام کوششوں پر بھاری تھا جسکے بغیر پاکستان کا وجود میں آنا ناممکن تھا.پاکستان کا ترقی پزیر ملک ہونے کے باوجود اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت بننا بھی یقیناً رسول اللہﷺ کے فیضانِ نظر کی بدولت تھا. رسول اللہ ﷺ اپنی حیاتِ مبارکہ میں بھی فرمایا کرتے تھے کہ مجھے ہِند کی طرف سے ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں.

میرِ عربﷺ کو آئ ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے میر ا وطن وہی ہے

اس سے بڑھ کر افسوس کا مقام کیا ہو گا کہ سیدنا محمدﷺ جنکے فیضان سے جنکے قدموں کی خاک کے صدقے ہمیں یہ وطن ملا آج اُسی وطن کی پارلیمنٹ میں فرانس کی سرکاری سطح پر ہونے والی توہینِ رسالت پر ایک مذمتی قرارداد تک پیش نہ ہو سکی. اسی وطن میں معشیت کی مجبوری کے نام پر فرانس کو ایک سخت لفظی جواب تک نہ دیا گیا .تحریک لبیک پاکستان نے رسول اللہﷺ کی عزت کےلیے فرانس کے بائیکاٹ کی قرارداد کو اپنے چوبیس شہداء کے خون سے پارلمینٹ تک پہنچایا تو ایک رسمی سماعت ہوئ جس میں وزیر اعظم سمیت آدھی سے زیادہ اسمبلی نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا. اجلاس میں قرارداد پر بات کرنے کی بجائے حکومت اور اپوزیشن کے نمائندے ایک دوسرے سے لڑتے رہے یوں مزید سماعت غیر معینہ مدت کے ملتوئ کر دی گئی.اور آج تک ملتوئ ہے.پارلمینٹ کے پاس وقت ہی نہیں کے وہ محض چند منٹ ہی رسول اللہﷺ کی عزت کے قانون پر بات کرنے کے لیے نکال سکے.
وزیر اعظم لیاقت علی خان نے نوزائیدہ سلطنت کو قائد اعظم کے نظریے کے مطابق سنبھالنے کا بیڑا اٹھایا مگر قدرت نے جلد انہیں بھی بلا لیا. اسکے بعد آج 74سال گزر گئے قائدِ اعظم کے قدموں کی خاک کے برابر بھی لیڈر پاکستان کو نصیب نہ ہو سکا.ہر آنے والے وقت میں اسلام کے نام پر, لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر بننے والے اس وطن میں مغرب سے قدم ملانے کی آڑ میں اسلام کو پسِ پشت ڈالا جا رہا ہے.اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام برائے نام رہ چکا.سیکولر ازم اور لبرل ازم کے نام پر ہر روز اسلامی اشعار کی دھجیاں اڑائ جاتی ہیں.دو قومی نظریہ کی کُھلے عام نفی کی جارہی.ہماری منفرد تہذیب,معاشرتی اقدار اور اسلامی لباس جو ہماری پہچان تھا دو قومی نظریہ کی بنیاد تھا یہ نظریاتی تشخُص ختم ہوتا جارہا ہے.
معاشی حالت کی ابتری کی وجہ سے سارا نظام سودی قرضوں کی بھیک پر چل رہا.سود جو اللہ تعالیٰ سے کُھلا اعلانِ جنگ ہے.پھر وطن ترقی کرے تو کیسے؟سود سے پاک معاشی نظام قائم کرنا قائد اعظم کا مقصد تھا اسلیے آپ نے سٹیٹ بنک آف پاکستان کی بنیاد رکھی.مگر آج پاکستان کا تمام معاشی نظام بشمول سٹیٹ بنک کے آئ ایم ایف کے تیار کردہ اصولوں پر چل رہا.ہماری معاشی خودمختاری نام کی بھی نہیں رہی. ہر فرد کے پیٹ میں سود کا حرام لقمہ جارہا. اسلامی سزائیں مکمل ختم کر دی گئی ہیں جسکی وجہ سے نظامِ عدل بدترین مذاق بن کہ رہ گیا ہے.ہر شُعبہ زندگی میں ہم دنیا سے پیچھے ہی.اس زوال کی وجہ اس مقصد سے منہ موڑ لینا ہے جسکے لیے یہ وطن بنا اور یہ مقصد نظامِ مصطفی‎ﷺ کا نفاذ ہے.پاکستان کی ترقی کا واحد حل یہی ہے کہ سیدنا محمد‎ﷺ سے وفا ہر ملکی مفاد سے بڑھ کر کی جائے.دستورِ ریاست مکمل طور پر قرآن و سنت کی روشنی میں ہو.مسلمانوں میں تبدیلی /ترقی اسلام کو پیچھے چھوڑ کر ہر گِز نہیں آسکتی.یہ وطن سیدنا محمد مصطفی‎ﷺکے نام کی جاگیر ہے اور اسےحقیقی معنوں میں ریاستِ مدینہ بنانے کے لیے اسلام کو محض لفظی نہیں عملی طور نافذ کرنا ہو گا. اللہ تعالئ ہمارے وطن کو کو قائدِ اعظم جیسی مخلص اور مُحبِ اسلام قیادت نصیب فرمائے.آمین

نام تیرا تا ابد تا قیامت رہے
اے وطن تو ہمیشہ سلامت رہے
سلامت رہے تا قیامت رہے(آمین)

@SMA___23

https://twitter.com/SMA___23?s=09

Leave a reply