بہت عرصہ سے سوشل میڈیا پر مختلف بحثیں دیکھی کے کسی ایک مکتب فکر یا اہل علم کے عقیدت مند اپنے نقط نظر کے حاملین کے علاؤہ دوسرے لوگوں سے دور بھاگتے نظر آتے ہیں انہیں بحثوں میں سوشل میڈیا پر انجینئر محمد علی مرزا اور مفتی طارق مسعود صاحب کے اختلاف کے چرچے کافی نظر آ رہے ہیں اور حیرت کی بات کے ایک کے عقیدت مند دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں اسی کشمکش میں شاید ہم یہ بھولتے جا رہے ہیں کے ہمیں تو خیر کی بات شیطان سے بھی پتہ چلے تو لے لینی چاہیے ہم اپنی رہنما کی ہر بات کو تسلیم کر رہے ہوتے ہیں اور دوسرے کی سہی بات بھی ناگوار لگ رہی ہوتی ہیں ایسے میں کیا ہم اپنا نقصان نہیں کر رہے اعلی حضرت ہوں یا مولانا مودودی کوئ صوفی ہو یا سلافی ، جاوید احمد غامدی ہوں یا مولانا الیاس قادری یہ سب خیر کی فیکٹریاں ہیں یہ یونیورسٹیاں ہیں ہم ان سب میں سے خیر تلاش کرنی تھی مگر ہم نے خیر کے بجائے دوسرے کی خامیاں تلاش کرنا شروع کر دی اگر کوئ شخص یہ سوچتا ہے کے دنیا میں کوئ شخص خیر ہی خیر ہے تو یہ اس کی کم عقلی ہے ہر شخص میں خیر اور شر موجود ہوتا ہے ہمیں چاہیے کے ہم خیر کو لیں اور شر سے کنارہ کشی کریں امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا یہ قول میرے لیے ہمیشہ فائدے مند رہا ہے کہ اگر کسی شخص میں ننانوے اجمال کفر کے ہوں اور اور ایک ایمان کا اور وہ اپنا مقصد واضح نہ کرے کے کیا کہنا چاہتا ہے تو ہمیں اس کے ایمان والے اجمال کو قبول کرنا چاہیے مگر ہم یہاں کسی کی ایک غلطی پر اس کی ساری خدمات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور ہم نے اپنی اندار ایک بیماری اور پیدا کر لی اور وہ ہے شک کی بیماری ہمیں اپنے سے مختلف رائے دینے والا سازشی نظر آتا ہے ہمیں چاہیے اپنے سینوں کو واسط دیں سب اہل علم سے استفادہ کریں اپنے علم کو بڑھیں میں ہرگز نہیں کہتا کے آپ مفتی یا سکالر بن جائیں مگر کم سے کم اچھی اور برائ میں فرق کا پتہ لگانا مشکل نہ ہو بنیادی علم حاصل ہو آپ کو اہل علم کے اختلاف اپنی جگہ مگر ان میں موجود خیر کو اپنے اندر اکٹھا کریں اگر ہم دل کے برتن میں خیر ڈالیں گے تو ہماری ذات خیر کا موجب بنے گی اگر یہ برتن ہی ہم نے شر سے بھر لیا تو ہمارا وجود ہے شر کی آب یاری کرے گا آؤ خیر تلاش کریں ایسا نہ ہو کے دیر ہو جائے ذیل میں ہم بیان کرتے ہیں کے ہمیں کیا کرنا چاہیے جب کسی بات میں اختلاف ہو تو
۔۔۔۔
آپس کے اختلافات اس بات کامظہر ہوتے ہیں کہ ہم سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن جب انتہا پسندی سوچوں میں داخل ہو جائے تو اختلاف مخالفت بن جاتا ہےاور یہیں سے اس سفر کا آغاز ہوا جس نے فرقہ پرستی کو جنم دیا
کچھ ضمنی سوالات اٹھے تو ان کے مختلف جوابات نے ”میں نہ مانوں” کا رویہ اختیار کیا اور دین کا بنیادی سبق ً عفو و درگزر” دور ہوتا چلا گیا اور انا و عصبیت کا عفریت چھاتا چلا گیا اب بھی وقت ہے کہ ہم تعصبات کے خول سے باہر جھانکنے کی کوشش کریں اور سینوں کو چوڑا کرنے کے بجائے دلوں کو کشادہ کریں
اپنی طرف اٹھنے والی انگلی کو کاٹنے والا رویہ ترک کر کے اس انگلی کا ہمارے کس عیب کی طرف اشارہ ہے اس کی اصلاح کا بندوبست کریں
میری نظر میں عجز و انکساری سے کوسوں دور چلے جانے کی وجہ سے ہم دین و دنیا کے ہر معاملے میں جذباتیت کا شکار ہیں
@painandsmile334

Shares: