لغت کے اعتبار سے روح کا مطلب "لطیف پھونک” ہے۔ یعنی جب پھونک لطیف ہو جاتی ہے تو اسے روح کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تخلیق کا فیصلہ کیا۔ تخلیق فرشتوں کی بھی ہوئی ہے، جنات کی بھی ہوئی اور تخلیق انسانوں کی بھی ہوئی ہے۔قرآن مجید میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پانی اور کیچڑ کے آمیزے سےانسان کی تخلیق کی ابتدا کر دی۔ یعنی جس طریقے سے اب ہم کھاتے ہیں پیتے ہیں تو ہمارے اندر ایک فیکٹری ہے جس میں ایک پروسس ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ایک نطفہ وجود میں آجاتا ہے، عورت میں ایک مادہ وجود میں آ جاتا ہے اور پھر ان کے ملاپ سے انسان کی تخلیق کی ابتدا ہوتی ہے۔ ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے یہ سارا معاملہ جو ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے وہ زمین کے پیٹ میں کیا تھا۔اس سارے پروسس میں ڈھانچہ (جسم) بنتا ہے۔جسم ایک مادہ کی قسم ہے، جس طرح انسان کا جسم مٹی اور پانی سے مل کر بنا ہے اِسی طرح فرشتوں کا جسم روشنی سے بنا اور جنات کا جسم آگ سے بنایا گیا ہے۔یہ سب مادہ کی اقسام ہیں۔
جسم میں جو اصل شخصیت آنی ہے، یعنی انسان کی شخصیت، جن کی شخصیت یا فرشتہ کی شخصیت وہ خدا کی طرف سے صادر ہونی ہے۔انسانوں، جنوں اور فرشتوں کی اصل حقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے صادر ہونے والا امر ہے۔خدا نے تخلیق کا فیصلہ کیا اس کے بعد خدا نے اس کا امر صادر کیا۔ خدا سے اس امر کے صدور کی کیفیت بلکل ایسے ہی ہے جیسے آپ پھونک دیتے ہیں۔ یعنی جیسے آپ کسی پر قرآن کی کوئی آیت پڑھ کر پھونک دیتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ پھونکنا ایک روحانی ارتقا کا عمل ہے۔
ہمارا علم محدود ہے، ہم اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے کہ وہ کیا چیز ہے جو اللہ تعالیٰ نے جسم میں منتقل کی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ ضرور بتا دیا ہے کہ منتقل ہونے کا عمل کم و بیش ایسا ہی ہوتا ہے جس طرح تم کوئی چیز پھونک دیتے ہو۔
آپ نے سنا ہو گا جب انسان سو جاتا ہے تو روح کو اس کے جسم سے الگ کر دیا جاتا ہے اور جس کا حکم ہو چکا ہوتا ہے اس کی روح کو روک دیا جاتا ہے ورنہ لوٹا دی جاتی ہے۔
قرآن نے اس کے لیے روح کی بجائے نفس کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یعنی ہمارے اندر جو شخصیت ہے اس کی حقیقت کو روح سے تعبیر کیا ہے۔ جب یہ ہمارے اندر آ گئی ہے تو اس شخصیت کو قرآن نفس کا نام دیتا ہے۔ یعنی ہمارا جسم نفس کا لباس ہے۔ نفس اور جسم سے مل کر جو چیز وجود میں آتی ہے اُسے انسان کہتے ہیں۔
ایک اور ٹرم استعمال ہوتی ہے جس کے لیے ہمزاد کا لفظ بولا جاتا ہے، قرآن میں اس کے لیے قرین کا لفظ آتا ہے۔ جس وقت انسان بُرا ارادہ کرتا ہے، بُرائی کے راستے پر چل پڑتا ہے تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ بار بار کی تنبہ کے بعد وہ بُرائی پر اصرار کرتا ہے تو قرآن مجید میں ہے کہ "پھر ہم اس پر کسی شیطان کو مسلط کردیتے ہیں۔” یعنی کسی شیطان کو یہ حق دے دیتے ہیں کہ وہ اب اس پر اپنا تسلط قائم کر لے۔ تو یہ جو شیطان مسلط ہوتا ہے اسے ہمزاد کہتے ہیں۔ پھر جب آپ کچھ بُرا کرنے کا سوچتے ہیں تو یہ اس میں اپنی ترغیب بھی شامل کر لیتا ہے۔ شیطان کا کام بھی یہی ہے کہ یہ آپ کو بُرائی کی طرف بلاتا ہے۔
اس کے برعکس صورتحال بھی قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ جب ہم دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہیں تو ہمارے ساتھ کراماً کاتبین (خدا کے لکھنے والے فرشتے) بھی لگے ہوئے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ فرشتے بھی ہم سے ایک تعلق رکھتے ہیں۔ جب ہم خیر کا ارادہ کرتے ہیں، اچھے راستے پر چلتے ہیں اور شیطان کی ترغیبات سے بار بار گریز کرتے ہیں تو ایک وقت آتا ہے کہ فرشتوں کی مدد ہمیں حاصل ہو جاتی ہے۔
اکثر لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ یہ قرین /ہمزاد ہر وقت انسان کے ساتھ رہتا ہے اور بچپن سے ہی انسان کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔ جبکہ قرآن مجید نے واضح طور پر بتا دیا ہے کہ جب کوئی خدا کی یاد دہانی سے گریز کرتا ہے تو اس پر شیطان مسلط کر دیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمزاد کو بچپن سے آپ کے ساتھ لگا دیا جاتا ہے۔ابلیس اور اس کے کارندوں کا اپنا کام تو جاری ہے ہی اور وہ ہر مسلمان پر حملہ آور ہوتے ہیں پر یہ کام خدا نے نہیں کیا لیکن جس وقت آپ نے خدا کی یاد دہانی سے گریز کا فیصلہ کر لیا تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا کے طور پر کسی شیطان (ہمزاد) کو آپ پر مسلط ہونے کا موقع دے دیا جاتا ہے۔
ایک روایت ہمیں ملتی ہے جس میں ہے کہ آپﷺ فرماتےہیں ” ہر ایک کے ساتھ ایک شیطان ہوتا ہے تو صحابہ کرام نے پوچھا کیا آپ کے ساتھ بھی ہے تو آپﷺ نے فرمایا ،ہاں میرے ساتھ بھی ہے پر میں نے اسے مسلمان کر لیا ہے۔”
اس روایت کی یہ حقیقت ہے کہ ایک تو ہمارے اندر نفس کی ترغیبات ہیں یعنی ہم خواہشات رکھتے ہیں اور بعض اوقات ہم خواہشات کے اسیر ہو جاتے ہیں۔ ایک تو وہ شیطان ہے جو ہمارے اندر موجود ہے، دوسرا شیاطین جن بھی موجود ہیں، تو ان میں سے بھی کوئی انسان کے پیچھے لگا ہوتا ہے۔ مسلط ہو جانا اور پیچھے لگا ہونا دو الگ الگ باتیں ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا ہے یہ ہر مسلمان پر حملہ آور ہوتے ہیں مجھ پر بھی ہوتے ہیں لیکن میں نےاللہ کی مدد سے اس کو مسلمان کر لیا، یہ بڑی خوبصورت تعبیر ہے۔ یعنی جب میں نے اس کی ترغیب کو قبول نہیں کیا ،اس کی آواز پر لبیک نہیں کہا تو اس نے بھی یہ کام کرنا بند کر دیا۔ یعنی اس نے بھی آخر ہتھیار ڈال دیے۔
سورہ القدر میں حضرت جبرائیل کے لیے بھی روح کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ کیوں کہ جب حقیقی شخصیت کے ساتھ کسی قسم کا مادی جسم استعمال نہیں کیا جاتا تو اسے روح ہی کہا جاتا ہے لیکن جب مادی جسم ساتھ ملتا ہے تو اس کے لیے پھر دوسرے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔اس لیے حضرت جبرائیل کو مقدس روح کہا جاتا ہے کیوں کہ ان کی شخصیت خالص ہے ان کے ساتھ کسی مادی جسم کو نہیں جوڑا گیا۔
اور آخر کار جب کسی انسان کا اس دنیا سے جانے کا وقت آتا ہے تو اس کی حقیقی شخصیت (نفس) کو اس کے مادی جسم سے الگ کر دیا جاتا ہے۔
twitter.com/iamAsadLal
@iamAsadLal
Shares: