گزشتہ روز اولمپکس 2020 کے اختتام پر وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب نے سوشل میڈیا پر ایک دوڑ کے مقابلے کی ویڈیو شئیر کی اور کہا کہ ”میں چاہتا ہوں کہ ہمارے پاکستانی نوجوان یہ دوڑ دیکھیں اور اس میں سے وہ اہم ترین سبق حاصل کریں جو کھیل نے مجھے سیکھایا ہے کہ آپ ہارتے تب ہیں جب آپ کوشش ترک کر دیتے ہیں“۔ اس ویڈیو میں ہوتا کچھ یوں ہے کہ مختلف ممالک سے خواتین کھلاڑی 1500 میٹر دوڑ کے مقابلے حصہ لے رہی ہوتی ہیں کہ اچانک ایک کھلاڑی اپنا توازن کھو بیٹھتی ہے لڑکھڑاتی ہوئی گِر جاتی ہے جس سے ٹکراکر مزید دوتین کھلاڑی گِر جاتی ہیں جن میں سے ایک نیدرلینڈ کی سیفان حسن (Sifan Hassan) نامی کھلاڑی بھی گِر جاتی ہے جو کہ گِرنے کے باعث تقریباسب سے پیچھے رہ جاتی ہے مگر ہمت نہیں ہارتی اگلے ہی لمحے اٹھ کردوبارہ دوڑنا شروع کر دیتی ہے اور کھیل میں شامل ہوجاتی ہے جبکہ مدمقابل کھلاڑی تب تک دور نکل چکی ہوتی ہیں مگر سیفان کوشش جاری رکھتی اور بھر پور مقابلہ کرتی آخر کار صرف آدھے سیکنڈ کے معمولی سے فرق سے وننگ لائن کو سب سے پہلے عبور کر کے مقابلہ اپنے نام کرتی ہے اور گولڈ میڈل کی حقدار قرار پاتی ہے جس سے ہمیں معلوم ہوتاہے کوئی بھی کھیل صبرو تحمل، مسلسل کوشش، محنت اور ٹارگٹ پر نظریں مرکوز کرنے سے جیتا جاسکتا ہے صرف کھیل ہی نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی میدان میں ووننگ لائن پر پہنچنا ہے تو یہی اصول اپنانے ہوں گے جس کی ایک بڑی مثال برطانوی کھلاڑی Jonathan Edward جوتھن ایڈورڈ کی ہے جو Three step Long Jumps Race کا کھلاڑی تھا جس نے پہلی بار 1988ء کے اولمپکس میں برطانیہ کی نمائندگی کی بھرپور محنت کے بعد کھیل میں حصہ لیا تین جمپ لگائے اور ساتھ ہی سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور رونا شروع کر دیا کیونکہ صرف 16 میٹر یعنی 48 فٹ لمبا جمپ لگا سکا جو کہ اولمپکس کے مقابلہ جات کی نسبت معمولی سی بات سمجھا جاتاتھا اور مجموعی طور پر 23 ویں نمبر پر آیا مگر اس نے اپنی اس بری کارکردگی کو ماننے سے انکار کردیا کیونکہ ہار اور شکست جیسے الفاظ اس کی زندگی میں تھے ہی نہیں وہ ہمت نہ ہارا اس کی قوم نے بھی اس کا جذبہ دیکھ کر اس کی حوصلہ افزائی کی اور چار سال بعد دوبارہ پھر اس کو اولمپکس میں آزمانے کے لیے تیار کرنا شروع کردیا انھیں چار سالوں میں وہ برطانوی قوم کے ٹیکسوں سے پریکٹس کرتا رہا اور 1992ء کے اولمپکس میں خوب محنت کے بعد دوڑا تین جمپ لگائے اڑان بھری اور سر پکڑ کر بیٹھ گیااور پھر رونا شروع کردیااپنے آپ کو کوسنا شروع کردیا اور بغیر کسی سے ملے شرمندہ ہوتا میدان سے باہر چلا گیا کیونکہ اس بار صرف 16.5میٹر لمبا جمپ لگا سکا تھا اور چار سال بعد مجموعی پوزیشن 35نمبر تھی جو کہ پہلے سے بھی 12 درجے تنزلی کی طرف تھی مگر جونتھن ضد کا پکا تھا جو ایک بار ٹھان لی وہ کر کے چھوڑا اس نے ہمت نہ ہاری دوبارا پھر کمر کس لی کہ میں یہ کر کے ہی چھوڑوں گا قوم نے بھی اس کا ناقابل شکست جذبہ دیکھ کر اس کا حوصلہ بڑھایا کسی نے اسے برا بھلا کہا اور نہ ہی کسی نے ملک واپسی پر گندے انڈوں اور ٹماٹروں سے استقبال کیا بلکہ اس پر چار سال پھر محنت کی اور اسے تیسری مرتبہ پھر برطانیہ کی نمائندگی کا موقع دے دیاآپ یہاں قومی شعور کا اندازہ کریں ایک طرف بدترین شکست پہ شکست اور دوسری طرف صبر و تحمل اور حوصلہ ہے
جوتھن ایڈورڈ نے تیسری مرتبہ اولمپکس میں حصہ لیا جو کہ 1996 ء میں امریکی ریاستGeorgia کے دارلحکومتAtlanta میں منعقد ہوئے اس نے ان کھیلوں میں بھر پور حصہ لیاو ہ جورجیا کے میدانوں میں بھاگا تین جمپ لگائے اور ساتھ ہی خوشی سے اچھل پڑا کیونکہ اب کی باروہ اچھی کارکردگی کا مظاہرا کر چکا تھا اور 17 میٹر لمبا جمپ لگا کر Silver کا تمغہ اپنے نام کیا مگر یہ اس کی منزل نہیں تھی اور نہ ہی برطانوی قوم اس سے یہ چاہتی تھی اس کی منزل اس سے بہت آگے کی تھی اور برطانوی قوم کی امیدیں بھی بڑی تھی لہذا قوم نے پھراس ہمت نہ ہارنے والے شخص کا ساتھ دیا اور اس نے پھر پریکٹس شروع کر دی کیونکہ وہ چوتھی مرتبہ بھی اولمپکس کے لیے نامزدکیا جاچکا تھا
چار سالہ طویل عرصے کے بعد 2000ء میں آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں اولمپکس کی مشعل جلی جس میں جونتھن ایڈورڈ نے چوتھی مرتبہ حصہ لیا۔ وہ سڈنی کے میدانوں میں بھاگا اپنی 12 سالہ کوشش کے بعد قسمت آزمائی کی تین جمپ لگائے ہوا میں اچھلا اور مٹی پر اپنی چھلانگ کا نشان چھوڑا اسے کچھ عجیب محسوس ہوا اسکور بورڈ پر نظر دوڑائی ساتھ ہی سجدہ ریز ہوگیا آنکھوں سے پھر آنسو جاری تھے مگر اب کی بار وہ تاریخ بدل چکا تھا وہ آنسو خوشی کے آنسو تھے اور اسٹیڈیم تالیوں سے گونج رہا تھا عوام کھڑے ہوکر اپنے قومی ہیرو کو داد دے رہے تھے کیونکہ اس نے نہ صرف اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتا بلکہ وہ سابقہ تمام ریکارڈ بھی توڑ چکا تھا اور آج 22 سال بعد اس کا لگایا ہوا 60 فٹ Three step jump کا ریکارڈدنیا توڑنے سے قاصر ہے یہ ہے وہ محنت کا پھل جو مسلسل 12 سال تک کرتا رہا جس کے بیچ ناکامیوں کا منہ بھی دیکھنا پڑا مگر وہ ہمت نہ ہارا مستقل مزاجی سے ڈٹا رہا صبرو تحمل سے کام کرتا رہا برطانوی قوم نے بھی اس کا بھر پور ساتھ دیا بل آخر وہ اعزاز حاصل کر ہی لیا جس کے وہ حقدار تھے
جبکہ دوسری طرف بحثیت قوم اگر ہم اپنے گریبان میں جانکیں تو ہمیں بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ چیمپین ٹرافی جیتنے والا کیپٹن اگر اگلی سیریز ہار جائے تو ہم اسے نشان عبرت بنا دیتے ہیں اس وقت پاکستانی کرکٹ ٹیم میں دنیا میں کسی بھی کھیل کی ٹیم میں سب سے زیادہ سابقہ کیپٹن ہیں کامیابیوں کی راہ میں ناکامیاں بھی ہوتی ہے جو ناکامی کے خوف سے ڈر اور سہم گیا وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا یہی وجہ ہے کہ نوجوان کھیلوں سے دور ہوتے جارہے ہیں نتیجتاََ حالیہ اولمپکس میں 22 کروڑ انسانوں کے وطن سے صرف 10 کھلاڑیوں نے اپنے بل بوتے پر حصہ لیا بد قسمتی سے ان میں سے کوئی ایک بھی تمغہ حاصل نہ کر سکا البتہ دو کھلاڑیوں طلحہ طالب اور ارشد ندیم نے فائنل تک رسائی حاصل کی جس سے نوجوانوں میں ایک امید کی کرن ضرور پیدا ہوئی ہے کہ حکومتی سرپرستی کے بغیر بھی اگر انسان محنت کرے تو اس کا ثمر ضرور ملتاہے اب نوجوانوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہے ان کے پاس اس وقت صرف ایک ہی حل ہے کہ وہ اپنی محنت اور لگن سے اس مایوسی کے اندھیروں میں روشنی کی شمع جلائے رکھیں اوراپنی صلاحیت کا سکہ منوائیں اگر حکومتی توجہ اور وسائل کی راہ دیکھتے رہے جہاں تقر یباََہر محکمے کی سربراہی پر ریٹائرافیسر مسلط ہیں تو پھر تاریخ میں گُھم ہو جاؤگے اپنی شناخت تک کھو بیٹھو گے۔
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں

Shares: