انسان چاہے جتنا بھی علم حاصل کر لے۔ لیکن وہ زندگی میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتا ۔جب تک اس کی تربیت اچھی نا ہو۔ تربیت کے بغیر علم فضول ہے ۔تربیت ماں کی گود سے شروع ہوتی ہے ۔اور پختگی کی بلندی پر درسگاہ کی چاردیواری میں پہنچ جاتی ہے۔ انسان کی پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ہے ۔اس کی پہلی تربیت کرنے والی اس کی ماں ہوتی ہے ۔پھر اس کا باپ اور باقی گھر کے بڑے لیکن تربیت کا سلسلہ گھر تک محدود نہیں ہوتا۔ اس کی پختگی کے لیے درسگاہ کی چاردیواری یا کسی استاد کی مخفل ضروری ہوتی ہے. بچے کی پہلی تربیت ماں باپ کی عملی زندگی ہوتی ہے .اگر ماں باپ کی عملی زندگی میں کوتاہی ہو گی تو بچے کی تربیت میں بھی کوتاہی ہو گی .جیسے اگر ماں باپ جھوٹ بولتے ہوں گے تو بچے بھی جھوٹ بولے گے. اگر ماں باپ اپنے بڑوں کی رشتہ داروں کی غیبت کرتے ہوں. تو بچہ بھی غیبت جیسے بد فعال جو زنا سے بھی بڑا گناہ ھے اس میں مبتلا ہو گا .
گھر کا ماحول بچے کی زندگی پر بہت گہرا اثر ڈالتا ہے .بچہ وہ ہی کرتا ہے جو وہ دیکھتا اور سنتا ہے. بچے کو بری صحبت سے بچاے بری صحبت بچے کو بے حیا ڈھیٹ گستاخ بنا دیتی ہے .بچوں کے ساتھ بہت محتاط رویہ رکھیں. بچوں کو غلطی کرنے پر پیار سے سمجھاے .بچوں پر ہاتھ اٹھانے سے گریز کریں ۔ بچوں پر ہاتھ وہی اٹھاتے ہیں جو زبان سے سمجھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ لیکن اگر بچہ پیار سے نہیں سمجھتا تو ڈانٹ لیں ۔اور اگر ڈانٹ بھی اسر نہیں کر رہی
تو تھوڑا مار لیں ۔لیکن یہ اس صورت میں جب آپ کو لگے کہ یہ غلط کام بچے کے لیے ۔نقصان دہ ہے ۔والدین بچوں کو بتایں کہ کمرے میں داخل ہونے سے پہلے دستک دیں۔ اور اجازت ملنے کا انتظار کرے۔ ماں باپ کے کمرے میں بھی داخل ہونے سے پہلے دستک دے ۔ماں باپ یا گھر کا کوئی بھی فرد بچے کی کسی بات کا مذاق نا اڑائے اس طرح بچہ بزدل ہو جاتا ہے ۔بچے پر بےجاتنقید نا کرےبچے کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس کی تعریف کریں۔ اس طرح بچہ کوشیش کرتا ہے ۔اور اچھا کام کرے۔اسکول میں بھی اساتذہ کو چاہئے۔ کہ سب بچوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرے۔ماں باپ کے بعد استاد ہی بچے کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ استاد کو چاہئے کہ بچے کی غلطی پر اسے پیار سے سمجھاے ۔استاد کا رویہ بہت معنی رکھتا ہے ۔
۔بچہ استاد سے ہی سیکھتا ہے۔ اب استاد کا کام ہے ۔کہ وہ کسطرح بچے کو پروان چڑھاتا ہے۔ اسے چاہئے کہ بچے میں خداعتمادی پیدا کرے ۔اسے آگے بڑھنے کا طریقہ بتایں۔ اس کی چھوٹی سی کوشش پر ساری کلاس کے سامنے تعریف کریں۔ بچے کو مار سے نہیں پیار سمجھاے۔ تاکہ اس کی صلاحیتیں ابھریں اور ماں باپ کو بھی چاہئے۔ کہ بچوں کے رویوں کو دیکھے کہ اگر بچہ زیادہ تنگ کرتاہے ۔تو وہ آپ سے توجہ چاہتا ہے۔ آپ کو چاہئے کہ سب کام چھوڑ کر اس کی بات توجہ سے سنیں ۔ اسے اپنے قریب کریں والدین اور اساتذہ بچے کی تربیت میں سب سے زیادہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ روک ٹوک بچے کو ضدی بنا دیتی ہے۔اسے سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا کام کرے۔وہ غلط اور صحیح میں تمیز نہیں کرتا۔ فرض کریں آپ کے بچے نے تعلیم کے میدان میں بہت فتح کی ہو لیکن اگر اس کی تربیت اچھی نا ہوئ ہو تو وہ کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکتا ۔کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک آپ ہر پہلو سے نظر نہیں رکھے گے۔کہ آپ کا بچہ کیا کرتا ہے اس کی دوستیاں کیسی ہیں ۔بچے کی پہلی تربیت اس کے ماں باپ کی عملی زندگی میں وہ ٹھیک نہ ہو تو بچے پر باتوں کا اثر نہیں ہوتا ۔ماں باپ بچے کا پہلا رول ماڈل ہوتا ہے ۔باتوں سے سمجھانا عملی زندگی میں تربیت کے بعد آتا ہے ۔اسلام جو سلامتی والا دین ہے۔اس نےاپنےپیروکاروں کو ہمیشہ ایسی تعلیمات دی ہیں ۔جن پر عمل کر نے سے ان کی دنیا بھی سنورتی ہیں اور اخرت بھی ۔اسلام میں اولاد کی تعلیم و تربیت پر بہت زور دیا ہے جو ماں باپ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرتے ہیں اور انہیں اچھے برے کی تمیز دیتے ہیں ان کے بچے دنیا میں بھی والدین کے فرمابردار اور ان کے سکون کا باعث بنتے ہیں ۔اور اخرت میں بھی اجر کا ذریعہ بنتے ہیں ۔نیک اولاد ماں باپ کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔
………….………………

twitter.com/@ambersaif3

Shares: