صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
بات یہ ہے کہ پاکستان سے محبت کے دعوے دار ہم سب ہیں۔ اور یقیناً ہم میں محب الوطنی کسی نہ کسی حد تک پائی جاتی ہے۔ لیکن جب میں تاریخ کا مطالعہ کرتی ہوں تو یہ جان کر آنکھیں اشکبار ہوتی ہیں کہ آج ہم آزاد فضاؤں میں اڑان بھرنے والے پنچھی کیا جانے کس طرح مملکتِ خداداد جبر کے شکنجوں کو توڑ کر دنیا کے نقشے پہ ابھری۔ ہمارے آباؤجداد کتنے صدموں، بلکتی اور خون چکیدہ آہوں سے گزرے۔ آج ہم آزاد فضاؤں میں اپنے وطنِ عزیز اور دینِ اسلام سے باغی، منحرف لوگ کیا جانے کہ حق کی راہ میں آڑے آنے والی اذیتیں کتنی جان لیوا ہوتی ہیں۔ ہم کیا جانے آنے والی نسلوں کی آزادی کے لئے کیسے ہمارے اسلاف نے سنگلاخ ہجرتوں کے طویل سلسلے کاٹے۔ آزادی کی قیمت تو کوئی کشمیر، فلسطین، برما اور بوسنیا کے مسلمانوں سے پوچھے کہ کیسے مذہب کے نام پر ان کو انتہا پسند کہہ کر مساجد اور مدارس پر حملے کر کے ان کا جینا اجیرن کر دیا جاتا ہے۔ ایک وہ ہیں جو اسلام کے نظریے کو تھام کر کتنے درد ناک دور سے گزر رہے ہیں۔ مصائب کو برداشت کر رہے ہیں۔ لیکن حوصلہ اور عزم چٹانوں کی طرح پختہ ہے۔ اور دوسری طرف ہم ہیں جنہیں اسلاف لہو لہان دور سے گزر کر ازاد فضا تحفے میں دے گئے جہاں نئی نسل جو آزاد فضا میں پیدا ہوئی اپنے نظریہ اسلام کو نافذ نہ کر سکی۔ پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا تو دشمن جل اٹھے اور یہ ہی کہتے تھے کچھ ماہ و سال سے زیادہ نہ ٹِک سکے گا اور دنیا کے نقشے سے غائب ہو جائے گا لیکن پھر انقلاب آتا ہے اور تاریخ یہ منظر دیکھتی ہے کہ پاکستان نہ صرف قائم و دائم ہے بلکہ ہمارے آباؤ جداد کی لازوال انتھک کوششوں نے یہ ثابت کر دیا:
جب اپنا قافلہ عزم و یقیں بسے نکلے گا
جہاں سے چاہیں گے رستہ وہیں سے نکلے گا
لیکن پھر ایسے حکمران آئے ایسا دور آیا ایسی قوم آئی جو ماضی کی اس عظیم کامیابی کی داستاں اور اپنے فرض کو فراموش کرکے باغی ہوگئی جو پاکستان سے وفا نہ کر سکی۔ حکمرانوان نے اس ملت کو لوٹ کر باہر جائیدادیں بنائی اور ذلت کی ماری قوم نے بھی اپنے حکمرانوں کی خوب پیروی کی اور جہاں جسے اپنا فائدہ نظر آیا اس نے ملک کو ڈس کر خودغرضی کا اعزاز اپنے نام کر لیا۔ ہم مذہب بیزار لوگ پاکستان اور اسلام کا باہمی رشتہ فراموش کر کے اندھا دھند مغرب کے پیروکار بن گئے۔ اور ذلت کو مول لے لیا۔ ہمارے قائد محمد علی جناح نے اسلام اور قرآن کا رشتہ واضح کرتے ہوئے فرمایا:
"وہ کونسا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسدِ واحد کی طرح ہیں؟ وہ کون سی چٹان ہے؟ جس پر اس ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کونسا لنگر ہے جس سے اس امت کی کشتی محفوظ کی گئی ہے؟ وہ رشتہ، وہ چٹان، اور وہ لنگر الله تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید ہے۔”
اج یوم آزادی کے موقع پر بذاتِ خود اپنا احتساب کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ ہم نے اس ملک سے کتنی وفا کی؟ ہم اس کتاب قرآنِ حکیم کے کتنے پیروکار ہیں؟ہم اپنے نظریہ اسلام کے کتنے پیروکار ہیں؟ ہماری ملت جس کلمے کے نام پر حاصل ہوئی ہم اس پر کتنا عمل پیرا ہوئے؟ آج ہمارے نوجوان مذہب بیزار کیوں ہیں؟ وہ آزادی آزادی کھیلتے ہیں۔ صرف یوم ازادی کے دن تقریریں کر لینا، نغمے پڑھ لینا، جھنڈیاں لگا لینا یہ کیسی وفا ہے؟ ہمارا جوش، جذبہ اور جنون کیوں اگست کے مہینے میں ابھر آتا ہے؟ اور نغموں اور تقریروں تک رسائی حاصل کر کے پھر ٹھنڈا پڑ جاتا ہے؟ ہم اپنے اسلاف کے لق و دق درد کیسے بھول گئے؟ ان کا نظریہ اسلام تھا اور ہم نے کیوں مغرب کو کامیابی کا نظریہ بنا لیا؟ ہمارے ضمیر کیوں مردہ ہو گئے؟ ہم کیوں اپنا فرض ادا نہیں کرتے؟ اور پھر لبرل مافیا اور جعلی دانشوروں کے ہتھے چڑھ کر سڑکوں پہ نکل کر فحش نعرے لگا کر اپنے نظریہ اسلام کی توہین کرتے ہیں؟ ہم کیوں اپنے اسلاف کی بے شمار قربانیوں کو بھول گئے؟ کیوں ہم نے ان کی وفاداری کو اپنے لئے مشعلِ راہ نہ بنایا؟ ہم نے کیوں پاکستان سے وفا نہ کی؟ کیوں اسلاف کی قربانیوں کی قدر نہ کی؟ تو جواب بہت کڑوا ہوگا اتنا کڑوا کہ الفاظ تحریر کرنا بھی مشکل ہیں۔
ہم نے دنیا پر اسلام نافذ کرنا تھا ہمیں تو امتِ وسط کہا گیا ہم خود ہی بے دین ہوگئے۔ ہماری نوجوان نسل دین بیزار ہوگئی۔ اور کیسے کفار کو موقع دیا اور ساری دنیا کے کفار مسلمانوں کے خلاف متحد ہوگئے اور آئے دن طرح طرح کے چنگلوں میں مسلمانوں کو پھنسایا جاتا ہے۔ اور مسلمان اس کتاب کے سچے پیروکار نہ بن سکے جس کی بنیاد پر یہ ملت قائم کی گئی۔
ہم تو اپنے قائد محمد علی جناح کے اس فرمان:
"ہمارا رہنما اسلام ہے اور یہ ہماری زندگی کا ضابطہ ہے”
سے انکاری ہوگئے
دراصل بات یہ ہے کہ آج پاکستان کے عوام بطور مسلمان اس راہ سے ہٹ گئے جس پر چلنے کے لئے ماضی میں جدوجہد کی گئی۔ آج پاکستان کو چہتر برس ہونے کو ہیں۔ اور ہم اپنے بزرگوں کی امانت کو نہ سھمبال سکے۔ ہم نے پاکستان میں دہشتگردی کے بیج بوئے اور پھر ان کی نشوونما کر کے انہیں زہریلے درخت بنایا، رشتوں کا قتل کیا، انسانوں کو جانوروں کا گوشت کھلایا، رشتوں کے تقدس کو پامال کیا، کئی حوس کے پجاریوں نے وحشیانہ درندگی دکھائی، کتنی شہزادیوں کے تقدس کو پامال کیا گیا، کسی نے حجاب سے انکار کیا تو کسی نے مادر پدر آزادی چاہی غرضیکہ یہ اس مقدس سر زمین پر پر بڑے بڑے گناہ فخر سے کئے گئے اور پھر ہوا یوں کہ الله کے عذاب کو جوش آیا الله نے کرونا کی صورت میں اپنے عذاب کی جھلک بھی دکھلائی۔ اور پھر کچھ تو واپس الله کی راہ میں لوٹ آئے اور کچھ نے سرکشی اور ہٹ دھرمی کو خوب نبھایا۔
یہ ہمارے شاندار ماضی اور آج درد ناک حالات کی داستاں ہے۔ تو آج یومِ آزادی صرف نغموں تقریروں تک محدود نہ رکھیں۔
آئیے آج اپنا احتساب کرتے ہیں۔ بغیر کسی نیب کے۔ آج ضمیر کی عدالت میں پیش ہوتے ہیں۔ اج جاگ جاتے ہیں۔ اپنے لئے لائحہ عمل طے کرتے ہیں آج فیصلہ کیجئے اور خود کو بدلئے اور وطن عزیز کے لئے کچھ کر جائیں۔ ہم زندگی کے جس بھی شعبے سے ہوں طالب علم ہوں، استاد ہوں، طبیب ہوں، صحافی ہوں، خواہ کسی اور پیشے سے منسلک ہوں۔ جو بھی کریں پہلے اپنے ضمیر سے ملاقات کریں کہ اس سے میرے وطنِ عزیز کو کیا فائدہ ہوگامیرے دین کو کیا فائدہ ہو گا اور کیا قیامت کے دن ہم الله رب العزت کا سامنا کرسکیں گے اپنے نبیوں کا سامنا کر سکیں گے کہ ہم نے بطور امت وسط ان کے مشن کو جاری رکھا یا پسِ پشت ڈال دیا ہم اپنے شہدا، اپنے اسلاف کا سامنا کر سکیں گے یا وہ ہمارا گریبان پکڑ کر پوچھیں گے کہ گرمی سردی کی جس شدت میں ہمیں موت کے گھاٹ اتارا جاتا تھا تمہیں ان دنوں اپنے گرم لحاف میں لپٹے یا ائیر کنڈیشںز میں آرام فرماتے ایک بار بھی ہمارا خیال نہیں آیا۔ آئیے آج فیصلہ کرتے ہیں۔ کوشش کرتے ہیں اپنے ملک کے لئے اپنے دین کے لئے۔
جب پرچمِ جاں لے کر نکلے ہم خاک نشیں نشیں مقتل مقتل
اس وقت سے کر آج تلک جلاد پہ ہیبت طاری ہے۔
کس زعم مین تھے دشمن اپنے شاید انہیں یہ معلوم نہ تھا
یہ خاکِ وطن ہے جاں اپنی اور جان تو سب کو پیاری ہے۔
@Nusrat_writes
Shares: