جعلی مارخورز اور خواتین، ایک حساس موضوع تحریر: حسن ساجد

0
149

افواج پاکستان کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے۔ پاکستان کی بہادر افواج دنیا بھر میں اپنی پیشہ وارانہ مہارت، بہادری اور عوام دوستی میں مقبول ہیں۔ ہماری بہادر فوج، ہر کٹھن وقت میں قوم کی امیدوں کا واحد مرکز و محور ہے۔ وطن کی سرحدوں کی حفاظت ہو یا کسی ناگہانی آفت کا سامنا افواج پاکستان ہمیشہ قوم کی امنگوں پر پورا اترتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی عوام اپنی افواج سے بے پناہ محبت کرتی ہے۔ بچے، بوڑھے، جوان، مرد ہوں یا خواتین سبھی بلا تفریق عمر و جنس پاک فوج سے جنون کی حد تک محبت کرتے ہیں۔ عوام کی محبت یوں تو ہر طرح کی فورسز سے دیدنی ہے مگر دفاع وطن کی آخری لکیر اور پاکستان کے خفیہ اداروں کو حصول چاہت میں امتیاز حاصل ہے۔
افواج پاکستان بالخصوص انٹیلی جنس افسران سے عوام کی اسی بے پناہ محبت کا چند بے ضمیر لوگ ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور خود کو سیکرٹ مارخور (آئی ایس آئی یا ایم آئی کا مجاہد) بول کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان نوسربازوں کے وار زیادہ کارگر ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے افراد کا اصل ہدف سوشل میڈیا پر موجود وہ خواتین ہیں جو افواج پاکستان کے ساتھ جنون کی حد تک محبت رکھتی ہیں اور اس کا برملا اظہار سوشل میڈیا پر بھی گاہے گاہے کرتی رہتی ہیں۔ انہیں میں سے اکثر خواتین گمراہ کن باتوں میں آکر سوشل میڈیا پر موجود جعلی اور خود ساختہ سیکرٹ مارخورز کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ایسے واقعات میں آئے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے لہذا حالات کو دیکھتے ہوئے ضرورت کے پیش نظر راقم الحروف نے اس حساس موضوع کو زیر قلم لانے کا سوچا ہے۔ ایک دلچسپ مگر افسوس ناک واقعہ آپ کے گوش گزار کرتا ہوں تاکہ معاملہ کی سنگینی آپ پر واضح ہوسکے۔
یہ واقعہ ضلع شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی کا ہے جو ایسے ہی کسی خود ساختہ پلاسٹک مارخور کی ہوس کا نشانہ بن گئی۔ خود ساختہ مارخور نے خاتون کی ملٹری سے محبت کو استعمال کرتے ہوئے اس کے سامنے خود کو ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کے نان کمیشنڈ آفیسر کے طور پر پیش کیا۔ اس خود ساختہ جعلی مارخور نے خاتون سے سوشل میڈیا پر تعلقات استوار کیے ۔۔وہ نوسر باز اس لڑکی کو شادی بیاہ کا لالچ دے کر اسے اپنی ہوس و زیادتی کا نشانہ بناتا رہا اور پھر اچانک سے غائب ہوگیا۔ خاتون/ لڑکی نے اپنے سیکرٹ مارخور کی تلاش شروع کردی اور ڈھونڈتے ڈھونڈتے اپنے جعلی مارخور کی بتائی گئی برگیڈ میں جاپہنچی ۔ خاتون اپنے والد کے ہمراہ سی او (کمانڈنگ آفیسر) کے سامنے پیش ہوئی اور اپنا مدعا بیان کرتے ہوئے انصاف کی اپیل کی. انسان دوست اور فرض شناس سی او صاحب کے حکم پر ایک آزاد اور خودمختار کمیٹی بنائی گئی جس نے واقعہ کی مکمل جانچ پڑتال کی اور معلوم ہوا کہ مطلوبہ نام کا کوئی شخص تو کسی یونٹ میں جمعدار (جھاڑو لگانے والا) تک نہیں ہے۔ اس وقت خاتون کے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہ تھا اور جو اذیت اسکے ضعیف العمر باپ کے چہرے پر میں نے دیکھی وہ بیان سے باہر ہے۔
یہ ایک واقعہ ہے جو میری آنکھ سے گزرا۔ ایسے بہت سے واقعات سے آپ لوگ بھی واقف ہوں گے اور ایسے بے شمار واقعات اور بھی ہوں گے جو میری یا آپ کی آنکھ سے اوجھل ہیں۔
یہ بات عین حق ہے کہ انفارمیشن وارفئیر کا دور دورہ ہے اور سوشل میڈیا ایک ایسا گورکھ دھندہ ہے جہاں کون کس روپ میں بیٹھا کیا کررہا ہے کسی کو معلوم نہیں مگر یقین کرلیں جو ہمارے اداروں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں ان میں ایک خوبی ضرور پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ ان کی تربیت بے حد پیشہ وارانہ انداز میں کی جاتی ہے وہ کبھی بھی آپ کو یہ نہیں بتائیں گے کہ وہ مارخور یا خفیہ کے کارندے ہیں اور وہ فلاں مشن کے لیے سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ یہ لوگ بے حد سلجھے ہوئے اور اپنی دھن کے مگن لوگ ہوتے ہیں انہیں کسی سے کچھ لینا دینا نہیں انکی نظر میں انکا کام مقدم ہے جسے وہ خاموشی سے انجام دے رہے ہوں گے۔ اس لیے میرے نزدیک ایسے واقعات کے رونما ہونے میں پہلا قصور خواتین کا اپنا ہی ہے جو جذبات کی رو میں اس قدر بہہ جاتی ہیں کہ انہیں نہ تو خیر و شر کی تمیز رہتی ہے اور نہ ہی وہ اپنے والدین یا خاندان کی عزت کا خیال کرتی ہیں۔
دوسری قصوروار ہستی ہمارا نظام ہے جہاں ملزمان کے پاس عوام کو گمراہ کرنے کے لیے کئی ہتھیار موجود ہیں ۔ اگر ان کا ایک ہتھیار نہ چلے تو دوسرا یا تیسرا یا موجود تمام میں سے کوئی ایک ان کے کام ضرور آ جاتا ہے ۔ لہذا ان گمراہ کن جعلی مارخورز کی روک تھام اور عوام میں شعور کی غرض سے چند اہم باتیں پیش خدمت ہیں.
ہمارے ہاں ایک غلط العام تاثر پایا جاتا ہے کہ پرائیویٹ یا بلینک (خالی) نمبر سے جب بھی کال آئے تو وہ سیکرٹ یا خفیہ کے اداروں سے آتی ہے۔ آپ لوگ سب سے پہلے یہ غلط فہمی دور کرلیں کیونکہ پرائیویٹ نمبر، غیر تصدیقی نمبر یا بلینک کال آنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کال کسی خفیہ ادارے یا سکیورٹی ادارے کے کسی اہلکار کی جانب سے کی گئی ہے. آجکل کے جدید ٹیکنالوجی کے حامل ترقی یافتہ دور میں ذرائع ابلاغ کا نظام جدید اور ترقی یافتہ ہو چکا ہے کہ ہر بڑے شہر میں پرائیویٹ کالنگ سروسز مہیا کرنے والے سینکڑوں لوگ موجود ہیں جو اپنی خدمات معمولی معاوضے کے عوض عام عوام کو آفر کرتے ہیں۔ یوں وہ پرائیوٹ نمبر جسے ہم سیکرٹ ایجنسی کا سمجھ رہے ہوتے ہیں کسی گاوں کے ماجے گامے یا شیدے طیفے کا بھی نکل سکتا ہے۔
معاشرے کے جدید تقاضوں کو دیکھتے ہوئے اور اختیارات کے ناجائز اور غیر ضروری استعمال کو روکنے کی غرض سے محکمہ انٹیلی جنس میں ایک باقاعدہ نظام موجود جس کے تحت کسی بھی شخص کا ریکارڈ رکھنے، اسکی حرکات و سکنات پر غور کرنے اور اسکا ٹیلی فونک اور دیگر میڈیا سے متعلق ریکارڈ پرکھنے سے متعلق اصول و ضوابط موجود ہیں. یاد رکھیے ایسی ذمہ داریاں اور اختیارات ادارے کے سرکردہ مخصوص افسران کو ہی سونپے جاتے ہیں اور ان کے سوا کسی کی ذاتی معلومات تک کسی کی رسائی نہیں ہوتی۔ یہ افسران انتہائی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے ماہر ہوتے ہیں وہ ایسی ذمہ داریاں اور ایسے حساس اختیارات آگے اس انداز سے تقسیم کرتے ہیں کہ ان کے ناجائز استعمال کو حتی الامکان حد تک روکا جاسکے۔ عین ممکن ہے کہ آپ کا خفیہ ڈیٹا آپ کی متعلقہ ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کے کسی اہلکار سے چند سکوں کے عوض بیچا ہو جس کی بنیاد پر آپ ایک نوسرباز کو سیکرٹ مارخور سمجھ رہے ہوں۔
تیسری اور اہم ترین بات یہ ہے کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے جو اپنی سوسائٹی میں روابط اور تعلقات کو پروان چڑهاتا ہے. وہ لوگوں سے ملنا اور ان سے مراسم قائم کرنا چاہتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں مختلف لوگوں میں ہم آہنگی اور دوستی بھی ایک فطری عمل ہے جس کی بنیاد پر کوئی شخص کسی طریقہ سے آپ کے متعلق معلومات حاصل کرسکتا ہے ۔ علاوہ ازیں معاشرہ خیر اور شر کے مشترکہ خمیر سے وجود میں آنے والی چیز ہے لہذا ہر ادارے میں اچھے اور برے لوگ موجود ہوتے ہیں کیونکہ اگر بدی نہ ہو تو نیکی کے وجود کی اہمیت کا ہمیں اندازہ کیسے ہو۔ ایسی صورتحال کے پیش نظر یہ بعید نہیں کہ آپ سے رابطہ کرنے والا شخص اصلی مارخور ہی ہو جو کسی بھی وجہ سے ایسی حرکت کربیٹھے۔ ایسے حالات سے بلکل بھی نہ گھبرائیں بلکہ یاد رکھیں کہ کوئی بھی شخص ماروائے قانون نہیں ہے اگر کوئی شخص آپ کو اس طرح ہراساں کرتا ہے یا آپ کو کسی غلط فعل کی دعوت دیتا ہےتو اس سے مرعوب ہونے کی بجائے فی الفور اس کے خلاف ایک عام شہری کی حیثیت سے پولیس اسٹیشن میں رپورٹ درج کروائیں۔ تمام حالات و واقعات اور ثبوتوں کو تفصیل سے رپورٹ کا حصہ بنائیں. کوشش کریں کہ اسکے خلاف رپورٹ میں اسکا خفیہ کا اہلکار ہونا ظاہر نہ کیا جائے بلکہ پولیس کو آزادانہ تحقیقات کرکے خود نتائج تک پہنچنے دیا جائے کہ آپ کو تنگ کرنے والا سیکرٹ ایجنٹ ہے یا جعلی نوسرباز۔
پولیس FIR اس عمل کا پہلا۔زینہ ہے۔ آپ محض پولیس کی رپورٹ پر ہی اکتفا مت کریں بلکہ سائبرکرائم ایکٹ اور ٹیلی گراف ایکٹ کے تحت بھی متعلقہ شخص کے خلاف درخواست دائر کریں اور عدالت سے انصاف کے لیے رجوع کریں۔ اگر متعلقہ حکام آپ کی بات پر کان نہیں دھرتے تو آپ کے پاس سٹیزن پورٹل جیسی بہترین سہولت موجود ہے اس کا استمعال کریں۔

اس تحریر میں تمام ممکنات کو زیربحث لانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اگر آپ کا کوئی سوال یا کوئی نکتہ باقی ہے تو آپ مجھے ٹویئٹر (DSI786@) پر رابطہ کرسکتے ہیں۔ اس تحریر کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ اپنے حقوق کی آگہی رکھتے ہوئے آزاد شہری کی حثیت سے جئیں اور جینے دیں۔

@DSI786

Leave a reply