عثمان کاکڑ خود تو سو گئے،مگر قوم کو جگا گئے۔ تحریر:اعجازالحق عثمانی

0
45


عثمان کاکڑ ایک عظیم رہنما اور فاضل سیاست دان تھے ۔انکے جھکے ہوئے کندھے بھی اس بات کے گواہ تھے کہ وہ ایک مفلس اور عاجز سیاست دان تھے ۔مٹی کی محبت ان کے لہجے میں جھلکتی تھی۔ محبت کے اس قدر امیں تھے کہ اختلاف کو جنگ سمجھنے کی بجائے وہ ہمیشہ امن کے راستے کو ترجیح دیتے۔ درد سے جس قوم کے کلیجے پھٹ چکے تھے ۔وہ ان کے ہمدرد تھے۔ بلوچستان، تاریخ کے اس اندھیری رات میں ہے جہاں ہر طرف سیاہی چھائی ہوئی ہے۔ جہاں غموں کی گھٹائیں ہر وقت برسنے کو تیار ہوتی ہیں۔ جہاں درد سے بلبلاتے والدین اپنے بچوں کے تابوتوں سے لپٹے بے جان ہو جاتے ہیں۔ جہاں بھائیوں کے خون سے لت پت سفید سروں والی بہنیں چیختی دیکھائی دیتی ہیں۔ جہاں کے مشعل جلانے والے نوجوانوں کی زندگی کی مشعل ہی بجھا دی جاتی ہے۔ لگتا یوں ہے کہ سارے درد اس علاقے میں بسنے والے پشتونوں کےلیے بنے ہیں۔ یہاں کے "ہزارہ کے "کلیجوں میں بھی چھید ہیں۔ یہاں کے باشندوں کا کتب خانوں میں جانا جرم عظیم سمجھا جاتا ہے۔ یہاں جو ایک بار ظلم کے خلاف بولا، پھر وہ کبھی نہ بول پایا۔
بلوچستان ، جہاں اداسی بال کھولے سو رہی ہے ، عثمان کاکڑ مردہ ضمیروں کو جگاتے جگاتے خود سو گئے۔ عثمان کاکڑ کے سفر آخرت کو دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ جیسے پورے بلوچستان کا بیٹا جارہا ہو۔ اور پورا پاکستان عثمان کاکڑ کے جانے کے درد کو محسوس کررہا تھا۔ عثمان کاکڑ بلوچوں کے لیے کیا تھا؟ سائیکل پر روتا ہوا ناعمر بچہ، روتے ہوئے ایمبولینس کے بونٹ کو چومنے والا بلوچ اور ثقافتی پہناؤوں میں ملبوس ماؤں کا رونا اور چیخنا اس بات کی علامت تھا کہ عثمان کاکڑ بلوچستان کا وہ ہیرا تھا جو اب ناپید ہوگیا ہے۔ ان مناظر سے سب کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ مگر دل تو تب دہل اٹھا جب بیٹی نے اپنے باپ کے تابوت پر سر رکھ کر کہا۔” تمہارے ساتھ جو ہوا میں جانتی ہوں، میں تمہارا انتقام لوں گی”

‎@EjazulhaqUsmani

Leave a reply