جمہوریت عام طور پر قدیم یونانیوں سے وابستہ ہے۔ 18 صدی کے دانشوروں کے مطابق یونانیوں کو مغربی تہذیب کا بانی بھی سمجھا جاتا ہے۔ جمہوریت کا لفظ دو یونانی الفاظ ڈیموس جسکا مطلب لوگ اور کراتوس
جسکا مطلب اصول کے ہیں کا مجموعہ ہے۔ پھر جیسے جیسے لوگوں میں شعور اور آگاہی پھیلتی گٸی ویسے ویسے جمہوریت کا نظام بھی دنیا میں پھیلتا گیا ۔ لفظ جمہوریت کی مختلف تعاریف بیان کی گٸی ہیں لیکن سادہ الفاظ میں جمہوریت کا مطلب ہے کہ عوام کی حکمرانی یعنی کے عوام اپنی مرضی سے آزادٸ راۓ کے ساتھ اپنے نماٸندے چن سکتی جو کہ عوام کے ووٹ سے اقتدار میں آتے اور ریاست کا نظم و نسق چلاتے آسان لفظوں میں کہا جاۓ تو یہ کہ جمہوریت ایک سیاسی نظم و نسق کا نام ہے۔
” میریئم ویبسٹر “ نے جمہوریت کی تعریف کی ہے کہ "ایک ایسی حکومت جس میں اعلیٰ طاقت لوگوں کے سپرد ہوتی ہے اور وہ براہ راست یا بالواسطہ طور پر نمائندگی کے نظام کے ذریعے عام طور پر منعقد ہونے والے انتخابات میں شامل ہوتے ہیں۔” کیمبرج ڈکشنری“ کے مطابق ، جمہوریت "لوگوں کے درمیان آزادی اور مساوات پر یقین ہے یا اس عقیدے پر مبنی حکومت کا نظام ہے ، جس میں اقتدار یا تو منتخب نمائندوں کے پاس ہوتا ہے یا براہ راست عوام کے پاس۔
خواندگی اور ناخواندگی یہ جمہوریت پر اثرات مرتب کرتی ہے۔
کم ووٹر ٹرن آؤٹ ایک مسئلہ ہے جو ان ریاستوں میں زیادہ ہے جن میں شرح خواندگی کا تناسب کم ہے یا وہ معاشی اور معاشرتی لحاظ سے پسماندہ ہیں اور اس ناخواندگی اور لا شعوری کے جمہوریت پر نقصان دہ اثرات بھی ہیں۔ پیو ریسرچ سینٹر(Pew Research Centre) کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ، اس دہائی میں او ای سی ڈی ممالک کے درمیان سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ کی شرح بیلجیم (87.2) ، سویڈن (82.6) اور ڈنمارک (80.8) میں ہے۔ اور یہ وہ ممالک ہیں جہاں شرح خواندگی 99 فیصد ہے۔ اس کے برعکس ، پاکستان میں حال ہی میں ووٹروں کی تعداد 58 فیصد تک پہنچ گئی ہے اور پاکستان میں شرح خواندگی بھی 60 فیصد سے کم ہے۔ شرح خواندگی اور ووٹر ٹرن آؤٹ کے درمیان براہ راست تعلق ہے اگر معاشرے میں ناخواندگی کی شرح زیادہ ہو تو ایک قابل قیادت کا انتخاب بہت حد تک ناممکن ہوتا ہے کیونکہ لوگ زات پات، رنگ و نسل اور برادری یا دیگر تعصبات کی بنیاد پر ووٹ دیتے انہیں یہ علم اور شعور ہی نہیں ہوتا کہ ان کا ووٹ ان کے اور اس قوم کے مستقبل کا زمہ دار ہے۔وہ ان تعصبات سے نکلنا ہی نہیں چاہتے انہیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ان کے ووٹ کی کیا اہمیت ہے۔
اسی طرح شرح خواندگی کا قیادت کے معیار کے ساتھ براہ راست تعلق ہے سیاسی رہنما کچھ نہیں بلکہ ہماری طرح ہی اس معاشرے کے ارکان ہیں جو تمام اچھی اور بری خصوصیات رکھتے ہیں۔ ہمیں معاشرے کے افراد میں شعور اور آگاہی پیدا کرنا ہو گی تعصبات اور غلامی کی زنجیروں کو توڑنا ہو گا اور ہر فرق اور تعصب سے بالا تر ہو کر سوچنا ہو گا تبھی ایک صحیح اور قابل قیادت کا انتخاب ممکن ہو گا۔ سمجھداری ، ذہانت ، وژن ، دور اندیشی ، وسیع النظری ، پختگی یہ خصلتیں صرف ایک تعلیم یافتہ اور اچھی طرح سے تیار معاشرے میں تیار ہوتی ہیں ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک کی پارلیمانوں کے ارکان کے درمیان موازنہ واضح طور پر اسی حقیقت کو ظاہر کرے گا۔ جہاں ترقی یافتہ ممالک کے اراکین پارلیمنٹ نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں بلکہ کچھ خاص تعلیمی شعبوں میں بھی ترقی یافتہ ہوتے
ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں میٹرک پاس بھی جعلی ڈگری لےکر اسمبلیوں میں بیٹھے ہوتے اور انہیں وہاں تک پہنچانے میں کہیں نہ کہیں ہماری ووٹ سے خیانت بھی ہوتی اور کچھ لوگ تو اثرو رسوخ کا استعمال کر کے یا ووٹ خرید لیتے یا چوری کر لیتے تو پھر اس معاشرے میں جمہوریت کیسے پروان چڑھے گی
ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ووٹ ایک امانت ہے ہمارے ہاں لا شعوری کا یہ عالم ہے کہ ہم سیاستدانوں کو خدا سمجھ لیتے کہ بس یہ ہمارے علاقے کا ہے یا یہ ہماری زات کا ہےیا یہ اتنا بڑا جاگیر دار ہے یا فلاح وزیر کا یا فلاں چوہدری کا بیٹا ہے تو اسی لیے اسے ہی ووٹ دینا ہے یہ امانت میں خیانت کے زمرے میں آتا ہے ۔ اور چند پیسوں کی خاطر ووٹ بیچ دینا تو پھر اس معاشرے میں جمہوری نظام کیسے قاٸم ہو گا۔ وہاں پر تو پھر کرپشن اور لاقانونیت ہی قاٸم ہو گی تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کی بجاۓ مزید پسماندگی کی طرف جاۓ گا۔ اور الیکشن کے دنوں میں نام نہاد عوام کے نماٸندے اپنے گارڈز کے ساتھ کھلے عام فاٸر کر ووٹ کاسٹ کرنے والوں کو ہراساں کرتے کتنے ہی لوگ گولیوں کی نظر ہو جاتے کیا یہ جمہوریت ہے نہیں یہ غنڈہ گردی ہے آمریت ہے لاقانونیت ہے ۔ ہمیں اس ملک و ملت کی فلاح و بہبود کے لیے حقیقی معنوں میں جمہوری نظام تشکیل دینا ہو گا ووٹ کا درست استعمال کرنا ہو گا اور اس کے لیے لوگوں میں شعور اجاگر کرنا ہو گا خواندگی کی شرح کو کم سے کم کرنا ہو گا تا کہ معاشرے ہر فرد اس قابل ہو سکے کہ وہ اس قوم کے
مستقبل کے لیے ایک درست قیادت کا انتخاب کرسکے۔
@b786_s