غریب کی نسل کی تعلیم اور اشرافیہ کا کردار حصہ سوم تحریر۔ چوہدری عطا محمد

0
39

میرا دل خون کے آنسورو رہا ہے حسرتیں ماتم کناں ہیں کہ میں اس بدقسمت معاشرے کا باسی ہوں جہاں غریبوں کے بچے تھل اور صحراؤں میں سسک سسک کر مر رہے ہیں اور امیروں کے کتے جرمن کے بنائے امپورٹڈ بسکٹ کھاتے ہیں منرل واٹر پیتے ہیں گرمیوں میں ائیر کنڈیشنز کمروں میں رہتے ہیں اور سردیوں میں مہنگے کمبل اوڑھ کر سوتے ہیں۔ ان کتوں کیلئے دنیا کے مہنگے ترین شیمپو، وٹامنز خوراک اور ادویات لائی جاتی ہیں ۔ ان کی رہائش غریب کی جھونپڑی کی بے بسی پر مسکراہٹ کے تازیانے برسارہی ہوتی ہے ۔

دوسری طرف معصوم بچوں کے پڑھنے لکھنے کی عمر ہوتی ہے اس عمر میں یا تو میرے وطن کے غریب بچے محنت مزدوری کرتے ہیں یا سماج دشمنوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں
اور وہ انہیں تخریبی سرگرمیوں میں طرح طرح سے استعمال کرتے ہیں جیب کترا بناتے ہیں چوری اور ڈاکے ڈالنے کے فن سے آگاہ کرتے ہیں۔ کچھ جرائم پیشہ افراد ان کے ہاتھ پیر توڑ کر ان سے بھیک منگواتے ہیں

حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اپنے عوام کی خدمت بہتر طریقے سے کر رہی ہے لیکن وہ سڑکوں شاہراہوں پر ان بچوں کو بھیک مانگتے, ہاتھ پھیلاتے، گاڑیوں کے پیچھے دوڑتے بھاگتے نہیں دیکھتی ۔ بے شمار بچے ہر روز کچرے کے ڈھیر پر جھکے اپنا رزق تلاش کررہے ہوتے ہیں گلے سڑے پھل اور ڈبل روٹی کی ٹکڑوں سے اپنے شکم کی آگ بجھا رہے ہوتے ہیں ۔

سخت سردی ہویا گرمی برسات ہویا موسموں کی سنگینی یہ بے پرواہ اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہیں اپنی ذمہ داری کو نبھاتے ہیں انہیں اپنی ماں کیلئے روٹی کا انتظام کرنا ہوتا ہے وہ پرانی چیزیں جن میں شیشہ ، خالی بوتلیں، ردی ، لوہا، پلاسٹک، شامل ہوتے ہیں انہیں بیچ کر چند روپے کما کر اپنے گھر والوں کے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔ مائیں توسب کی ہوتی ہیں ان محنت کش بچوں کی بھی مائیں ہیں جو خود انہیں رزق کی تلاش میں گھروں سے رخصت کرتی ہیں اور خود بھی محنت مزدوری کرتی ہیں جب کہ بہت ساری عورتیں مشقت کرتی ہیں فیکٹریوں اور کارخانوں میں چند روپے کے عوض پورا دن کام کرتی گزار دیتی ہیں ۔

ایک طرف بھیک مانگنے والا طبقہ ہے تو دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو غربت کی لکیر سے نیچے رہ کر زندگی بسر کر رہے ہیں،
وہ بچے جن کی عمریں بمشکل پانچ سال سے دس سال تک ہوتی ہیں ورکشاپوں پر ڈینٹ پینٹ کا کام کر ریے ہوتے ہیں
ٹرین کا سفر ہویا بسوں کا معصوم بچے ہر شہر میں چائے اور دوسری کھانے پینے کی اشیاء بیچتے ہوئے نظر آئیں گے بجے گاڑیوں کے پاس آکر اپنا ہاتھ پھیلاتے ہیں اور مدد کے منتظرہوتے ہیں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو انہیں دھتکاتے نہیں ہیں ورنہ زیادہ تر وہ ڈانٹ ڈپٹ کا شکار رہتے ہیں بچوں پر تشدد کے حوالے سے بھی درد ناک واقعات سامنے آتے ہیں

گھروں میں کام کرنے والے ننھے معصوم پھول جیسے بچوں پر معمولی سی غلطی کی بنا پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں ہمارے ملک میں قانون نام کا ایک خوبصورت پرندہ ہوا کرتا تھا

جو زمانہ ہوا اڑ چکا ہے کسی نے بھی پکڑنے کی کوشش نہیں کیں اگر حکومت لوگوں کے جینے کیلئے اسباب پیدا کردے تعلیم اور انصاف مفت فراہم کرے، تو کوئی بچہ نہ تو کچرے کی ڈھیر سے گلی سڑی غذا سے اپنا پیٹ بھرے گا اور نہ ہی تخریب کاروں کے ہتھے چڑھے گا۔ آج کے بچے پاکستان کا مستقبل ہیں ۔

خدارا ! اپنے مستقبل کو بچا لیجئے

@ChAttaMuhNatt

Leave a reply