لازوال محبتوں بھرا رشتہ ماں باپ جو اپنے بچے کے بہتر اور روشن مستقبل کے لیے کچھ تلخ فیصلے کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ماں باپ یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے عزیزو اقارب کو ان کا کیا گیا فیصلہ پسند آئے یا نہیں ۔ بس وہ کر گزرتے ہیں جو اپنی اولاد کے لیے بہتر سمجھتے ہیں۔ بلکل اسی طرح ملک کا جو سربراہ ہوتا ہے اس کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی سربراہی میں ملک کو بہتر اور مستحکم بنانے کے لیے اچھے سے اچھے فیصلے کرے۔

کسی بھی ملک کا سربراہ باپ کی حیثیت رکھتا ہے اور ایک باپ کے فیصلے اپنے گھر اپنی دھرتی ماں کے لیے ہی ہونے چائیں۔بھلے پھر ملکی مفاد کے لیے اسے کوئی کڑوا فیصلہ ہی کیوں نا کرنا پڑے۔ ہم نے گزشتہ تین سالوں میں ملکی مفاد کے حق میں ایسے فیصلے ہوتے دیکھیں ہیں۔
جس کی مثال گزشتہ حکومتوں کے دور میں نہیں ملتی۔

کپتان بائیس سالوں کی جدوجہد کے بعد جب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم بنے تو سب سے پہلے انھوں نے قوم کو اپنے منشور کے حوالے سے آگاہ کیا۔ انھیں یہ بات باخوبی بتائی کہ میری ذات اس عہدے کو سنبھالنے کے بعد جو بھی فیصلے کرے گی وہ ملکی مفاد کے لیے ہونگے۔ میرے لیے سب سے پہلے پاکستان کے مفاد ہونگے انھیں حاصل کرنے کے لیے اگر مجھے میرے کسی اپنے کے خلاف بھی جانا پڑا تو جاؤں گا۔

ان تین سالوں میں ہمیں یہ بھی دیکھنے کو ملا کے کپتان نے اقتدار سنمبھالنے کے بعد اپنے کئی فیصلوں میں یوٹرن لیا۔یا یہ کہ لیں کہ اپنا فیصلہ تبدیل کیا کیونکہ وہ ملکی مفاد میں نہیں تھا۔اسی وجہ سے وہ اپوزیشن کی تنقید کا بھی نشانہ بنے رہے اپوزیشن کا کہنا تھا کہ عمران خان ملک کیا سنبھالے گا جب اپنے ہی کئے گئے فیصلوں پر بار بار یوٹرن لے لیتا ہے۔

قارئین میرا تو ماننا ہے کہ انسان سے اگر کوئی غلط فیصلہ ہو جائے تو اس پر یوٹرن لے لینا زیادہ بہتر ہے بجائے اس کے کہ اپنے ایک غلط فیصلے سے وہ اپنا اور دوسروں کا نقصان کر بیٹھے اور یقین جانیں ہمارے بہادر اور نڈر وزیراعظم عمران خان نیازی کی سوچ اس سے بھی کہیں آگے کی ہے جو ہر وقت اپنے ملک اور عوام کے مفاد کے لیے سرتوڑ محنت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ اس بات کا باخوبی اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کپتان نے تین سالوں میں حکومت میں کئی وزراء سے استعفے بھی لیے گئے اور انھیں ان کے عہدوں سے دستبردار کر دیا گیا۔

مسلم لیگ ن کے دورے حکومت میں ہم نے تو یہ بھی دیکھا کہ اپوزیشن استعفے کا کہتی تو ن لیگ والے مذاق اڑاتے تھے کہ لو گے استعفے وہ طلال چھودی اور باقی سارے اور یہی کیوں خود نواز شریف کو جب تک عدالت نے گھر نہیں پھیجا اس نے استعفہ نہیں دیا تھا۔
پھر گلی گلی کہتا رہا مجھے کیوں نکالا۔

کپتان نے جو استعفے مانگے اس کی وجہ ہی یہ تھی کہ وزراء نے اپنے عہدوں کا صحیح حق ادا نہیں کیا تھا۔ ان میں وہ وزراء بھی شامل تھے جو بہت حد تک کپتان کو عزیز تھے پر کپتان نے اپنے تعلقات سے ہٹ کر ملکی مفاد میں فیصلے لیے۔آپ سابقہ وزیر خزانہ اسد عمر کی ہی مثال لے لیں جنہوں نے کپتان اور اپنی پارٹی کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑا۔ پر جب ان سے بھی ان کی وزارت نا سنمبھالی گئی اور کپتان کو محسوس ہوا کہ ملک میں مہنگائی پر قابو نہیں پایا جارہا اور ملکی خزانے کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا تو انہوں نے اسد عمر سے بھی استعفیٰ طلب کرلیا تھا۔

وجہ صرف ملکی مفاد تھی اور اس کے متعلق کپتان کا جو فرض تھا وہ ادا کیا۔ کپتان نے اپنے ہر عمل سے یہ بات ثابت کی کہ جو وعدے انہوں نے اپنی قوم سے کیے ہیں وہ وعدے وہ بھولے نہیں ہیں۔

جمہوری حکمرانوں میں اسی طرح ہم نے اس سے قبل نہیں دیکھا۔اور نہ ہی سابقہ حکمرانوں میں کبھی کسی کو ملکی مفاد کے حوالے سے ایسے اقدامات کرتے دیکھا۔کوئی بتائے ہمارے سابقہ وزیراعظم نے اپنے کسی چہیتے وزیر سے ناقص کارکردگی پر استعفے کا مطالبہ کیا ہو؟ وجہ ان کا اصل مقصد وطن عزیز کو لوٹنا تھا ملکی مفاد کے لیے کام کرنا نہیں تھا۔

اللہ پاک کپتان کو سلامت رکھیں اور وہ اس ملک کے لیے مزید اچھے اچھے فیصلے کریں۔آمین

@No1Hasham

Shares: