پاکستان نے پہلے دن سے دنیا پر زور دیا ہے کہ افغان امن طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مضمر ہے اور کسی بھی فریق کی طرف سے طاقت کا استعمال ، چاہے وہ طالبان ہو یا کابل حکومت،افغان امن عمل کو نقصان پہنچائے گا۔
افغان جنگ جو کہ امریکی افواج نے طالبان کے خلاف قریباۤ 20 سال تک نیٹو کی چھتری تلے لڑی جو کہ دنیا کا سب سے بڑا فوجی اتحادہے، ابھی تک نتیجہ بالکل مختلف ہے جس کی امریکی اور دنیا نے پہلے کبھی توقع نہیں کی تھی۔
یہ لڑائی امریکہ میں 9/11 کے المناک واقعہ کے بعد اس وقت کی امریکی حکومت نے مبینہ طور پر اسامہ بن لادن پر الزام لگایا کہ اس نے اس حملے کی منصوبہ بندی طیارے ہائی جیک کرنے کے بعد کی ہے۔ اس وقت اسامہ بن لادن افغانستان میں رہ رہے تھے ، جہاں افغان طالبان حکومت میں تھے اور ملا عمر اقتدار سنبھالے ہوے تھے۔ امریکہ نے اس وقت کی افغان طالبان حکومت سے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کو کہا۔ اور دھمکی دی کہ بصورت دیگر افغانستان کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔
طالبان حکومت نے ایک اجلاس کے بعد متفقہ طور پر پریس ریلیز جاری کیا کہ وہ تحقیقات اور تفتیش کے حوالے سے امریکی حکومت کی مدد کے لیے ہر طرح سے تیار ہیں۔ تاہم ، وہ اسامہ بن لادن (ان کے مہمان) کو امریکہ کے حوالے نہیں کریں گے ، اور یہ کہ وہ کوئی ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔
بش حکومت نے طالبان کی اس پیشکش کو قبول نہ کیا اور امریکی عوام کے پرزور مطالبے پر نیٹو افواج نے افغانستان میں داخل ہو کر طالبان حکومت کے خلاف لڑائی شروع کر دی، شدید لڑائی کے بعد طالبان کی حکومت منہدم ہو گئی۔ امریکہ نے اپنی مرضی کی حکومت کو مقرر کر دیا جسکے بعدافغانستان میں امریکی حمایت یافتہ حکومتوں کے اقتدار میں آنے کا یہ عمل 2021 تک جاری رہا۔
نیٹو افواج جدید بندوقوں ، ہیلی کاپٹروں ، طیاروں ، بموں اور جدید ٹیکنالوجی سے لڑتی رہی لیکن کوئی بھی چیز نیٹو افواج اور امریکہ کو براہ راست اپنے مقاصد کے حصول میں مدد نہیں دے سکی جس کے بارے میں وہ سوچ رہے تھے۔
طالبان اور نیٹو افواج دونوں کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ، لاکھوں افغانی ہلاک ہوئے ، لاکھوں لوگ پاکستان ، ترکی ، ایران اور دیگر پڑوسی ممالک میں ہجرت کر گئے۔ افغانیوں کی میزبانی کرنے والے سرفہرست ممالک بالترتیب پاکستان اور ترکی تھے۔ اس افغان جنگ کے دوران پاکستان نے تقریباِۤ 80 ہزار افراد اور اربوں ڈالر کی معیشت کھو دی۔ افغانستان میں انفراسٹرکچر تباہ ہوگیا اور غربت غالب آئی۔
تاہم ، پاکستان نے ہمیشہ بین الاقوامی برادری اور اہم سٹیک ہولڈرز امریکہ اور نیٹو ممالک کو طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کرنے پر زور دیا اور اس بات پر روشنی ڈالی کہ یہ جنگ افغان عوام کی بالکل مدد کیوں نہیں کر رہی۔ اس کے بجائے ، ہر گزرتے دن کے ساتھ سراسر نقصان ہوتا ہے۔ افغانستان میں امن لانے کا واحد حل ان طالبان سے مذاکرات کرنا ہے جو افغانی بھی ہیں اور افغانستان میں بڑے پیمانے پر زمین پر ان کا کنٹرول بھی ہے۔
مزاکرات کے ذریعے افغان امن عمل کے حوالے سے پاکستان کی بلند آواز کے باوجود ، دنیا نے پاکستان کے بیانیے کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف یہ کہا کہ طالبان دہشت گرد ہیں اور نیٹو افواج انہیں آسانی سے ختم کردیں گی۔ لیکن ٹرمپ حکومت کے دوران امریکہ نے اپنی پالیسی تبدیل کی اور افغانستان اور اس طرح کے دیگر متنازع ممالک سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا ارادہ کیا ، انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ تنازعات میں کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے بجائے اپنی معیشت پر توجہ دے گا۔ ٹرمپ نے اس پالیسی کو اس وجہ سے تبدیل کیا کہ چین ایک نئی معاشی سپر پاور کے طور پر ابھر رہا ہے جو آنے والے برسوں میں امریکہ کو پیچھے چھوڑ دے گا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے طالبان قیادت سے بات چیت شروع کی اور افغانستان سے اپنی افواج کے انخلا پر رضا مندی ظاہر کی۔ پاکستان نے ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا اور یقین دلایا کہ پاکستان طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے گا تاکہ وہ افغان امن عمل کے حوالے سے بات چیت کے لیے میز پر لائیں۔ یہ مذاکرات دوحہ میں 2013 میں شروع ہوئے ، جہاں حامد کرزئی (افغانستان کے سابق صدر) ، امریکی نمائندے اور طالبان قیادت نے شرکت کی۔ تاہم ، یہ ملاقات حامد کرزئی نے صرف اس لیےمنسوخ کر دی کیونکہ طالبان نے اپنے "اسلامی امارت افغانستان” کے جھنڈے کو اس دفتر پر لگایا تھا جہاں یہ ملاقات ہونی تھی۔
طالبان نے کئی مہینوں تک اپنا دفتر بند رکھا اور مذاکرات ملتوی رہے۔ پاکستان پرامن مذاکرات کی اہمیت کے لیے آواز بلند کرتا رہا۔ 2016 میں پاکستان ، چین اور امریکہ نے افغان امن عمل پر تبادلہ خیال کے لیے ایک اجلاس منعقد کیا اور پاکستان نے اس اجلاس کی صدارت کی۔
پھر دسمبر 2019 میں ، دوحہ میں ، طالبان قیادت اور امریکہ نے افغان امن عمل کے معاہدے پر دستخط کیے جس میں تقریبا 6 ماہ لگے۔ امریکہ نے ستمبر 2021 کے اختتام تک اپنی افواج کو مکمل طور پر واپس بلانے کا فیصلہ کیا ، ان شرائط کو شامل کرتے ہوئے کہ طالبان اس انخلا کے دوران نیٹو افواج پر حملہ نہیں کریں گے۔ دونوں طرف سے مکمل جنگ بندی ہوگی۔ 2019 سے 2021 کے دوران اس وقت کے دوران اتار چڑھاؤ آئے۔ تاہم ، امریکہ نے اپنے ہزاروں فوجی واپس بلا لیے ، بگرام ایئر بیس کو خالی چھوڑ دیا۔ امریکیوں نے رات کے وقت بگرام ایئربیس چھوڑ دیا اور یہاں تک کہ ا پنی حمایت یافتہ افغان حکومت کو اطلاع کرنے کی زحمت بھی گوارانہ کی جس پر اشرف غنی انتظامیہ نے تحفظات کا اظہار کیا۔
طالبان نے امریکی افواج کی واپسی کا خیر مقدم کیا ۔ تاہم ، اس کے ساتھ ہی طالبان نے افغانستان کے اضلاع ، صوبوں اور اہم عمارتوں پر قبضہ کرنے کے لیے پیش قدمی شروع کر دی جس نے عالمی برادری کو حیران کر دیا تاہم ، بائیڈن انتظامیہ نے اس ساری صورتحال سے یہ کہہ کر گریز کیا کہ افغانستان کے پاس 0.3 ملین فوج ہے جو دیرپا جنگی سازوسامان رکھتی ہے اور وہ طالبان کو ملک پر کنٹرول نہیں ہونے دے گی۔ لیکن حالیہ تازہ کاروایاں دنیا کو بتاتی ہیں کہ افغان فوج ایک کے بعد ایک تمام صوبوں اور شہروں میں ہتھیار ڈال رہی ہے اور قیادت نے محفوظ راستے کے لیے پڑوسی ممالک کی طرف بھاگنا شروع کر دیا ہے۔
دوسری طرف ، جب طالبان قیادت اور طالبان کے فوکل پرسن ذبیح اللہ مجاہد سے ان کی پیش قدمی اور افغان سرزمین پر قبضے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کا معاہدہ امریکہ کے ساتھ تھا نہ کہ کابل حکومت کے ساتھ ۔ مزید یہ کہ طالبان کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اشرف غنی پہلے مستعفی ہو۔
اب دنیا افغانستان میں طاقت کا کھیل دیکھ رہی ہے جب طالبان نے تمام بڑے شہروں ، اہم صوبوں ، بشمول ہرات ، قندھار ، کنڑ ، اور مزار شریف کے ساتھ ساتھ پڑوسی ممالک سے ملحقہ سرحدوں پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔
طالبان اب کابل میں داخل ہو چکے ہیں۔ اشرف غنی نے استعفیٰ دے کر حکومت کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوحہ میں معاہدے کے بعد طالبان کو بیشتر عہدیدار افغانستان چھوڑ چکے ہیں جن میں امر اللہ صالح – نائب صدر ، سلامتی کے مشیر محب ، اور خود اشرف غنی شامل ہیں۔
مزید برآں ، افغانستان کے تاجک رہنما صلاح الدین ربانی ، یونس قانونی ، احمد شاہ مسعود کے بھائی احمد ضیاء مسعود ، احمد ولی مسعود ، ہزارہ رہنما استاد محقق ، کریم خلیلی ، استاد عطانور کے بیٹے خالد نور اور افغان قومی اسمبلی کے اسپیکر رحمانی پی آئی اے کے خصوصی طیارے کے ذریعے پاکستان پہنچے۔
یہ صورتحال بہت دلچسپی سے آگے بڑھ رہی ہے کیونکہ طالبان کابل حکومت کی طرف سے کسی مزاحمت کے بغیر آگے بڑھ رہے ہیں۔ اور ایسا لگتا ہے کہ کابل حکومت ختم ہو چکی ہے ، اور جلد ہی افغانستان پر طالبان کا کنٹرول ہو جائے گا۔
تاہم ، یہ سب ان مذاکرات کے ساتھ ہو رہا ہے جن کی پاکستان نے ہمیشہ تاکید کی تھی ، کیونکہ یہ کسی بھی قسم کے تنازع سے بچنے کا بہترین حل ہے جو بصورت دیگر ملک ، اس کے عوام اور افغانستان میں ایک اور نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز پورے خطہ کو نقصان پہنچائے گا۔ پاکستان امن عمل کی مکمل حمایت کرتا ہے اور مستقبل میں پرامن اور خوشحال افغانستان چاہتا ہے۔
پاکستان ایک پرامن افغانستان چاہتا ہے چاہے کوئی بھی اس وقت کنٹرول کر رہا ہو پاکستان ان لوگوں کے ساتھ ہو گا جنہیں افغان عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہو گی۔ وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی پالیسی اب واضح ہے۔ ایک پرامن افغانستان اور حکومت جس کو اکثریتی عوام کی حمایت حاصل ہو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیے قابل قبول ہو گا۔
مزید یہ کہ ایک پرامن افغانستان علاقائی ترقی کے سا تھ ساتھ چین- پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کی کامیابی کا ضامن بھی ہے۔








