مشرق سے مغرب کا سفر تحریر محمد علی شیخ ۔

0
38


کیسی جگہ پر رہنے والے
افراد کی ایسی آبادی ہو جو اس اصول پر آپس میں رہائش پزیر ہوں کہ ان کے مفادات مشترک ہوں.
اس آبادی کے ﺍﻓﺮﺍﺩ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﮯ ﮔﺮﻭﮦ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺴﮑﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﺿﺮﻭﺭﯾﺎﺕ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﻣﺸﺘﺮﮐﮧ ﺭﻭﺍﺑﻂ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﮐﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﯾﮧ ﻻﺯﻣﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻧﮑﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻗﻮﻡ ﯾﺎ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻣﺬﮨﺐ ﺳﮯ ﮨﻮ۔ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﺧﺎﺹ ﻗﻮﻡ ﯾﺎ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻋﺎﻡ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﺳﮑﺎ ﻧﺎﻡ اس جگہ پر رہنے والوں ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﻨﺪﻭستان کانام سنتے ہی دماغ میں آجاتا ہے یہ جگہ ہندوؤں کے رہنے کی جگہ ہے۔ یورپی ممالک کے ناموں کو سن کر فوری معلوم ہو جاتا ہے یہ ممالک عیسائی یا یہودی ہیں ۔ﺍﺳﻼﻣﯽ ممالک کے نام سے ﺍﺳﻼمی ممالک معلوم ہو جاتے ہیں۔ یہ الگ بات کے کہ ان مسلم ممالک میں کتنا اسلام نظام قائم ہے۔ دین اسلام نے ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﺿﺮﻭﺭﯾﺎﺕ ﺯﻧﺪﮔﯽ اور آپسی محبت ﮐﻮ ﻣﺰﯾﺪ ﺑﮍﮬﺎ ﮐﺮ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﭼﺎﺭﮮ ﺍﻭﺭ ﻓﻼﺡ ﻭ ﺑﮩﺒﻮﺩ کی تمام تر ذمے داری سب پر لاگو کر دی۔ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﺳﻮﺭۃ ﺁﻝ ﻋﻤﺮﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺖ 110 ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﺗﺼﻮﺭ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺟﮭﻠﮏ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺟﺎﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ زندگی گزانے کے اصول کے سے ﮨﻮنے ﭼﺎﮨﯿﮱ، ﺗﺮﺟﻤﮧ : ۔۔۔۔۔ ﺗﻢ ﺍﭼﮭﮯ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﮮ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻨﻊ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ۔۔۔۔۔ ﺍﺱ ﻗﺮﺁﻧﯽ ﺗﺼﻮﺭ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ بنیادی اصول سامنے رکھ دیا جیسے ہم کو کبھی بھولنا نہیں چاہیے۔ اس حکم خداوندی سے ہر ﺟﺎﻧﺐ ﺭﺍﮦ ﮐﮭﻠﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﮩﺎﮞ بھی آپ رہیں اس ﮐﮯ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﺗﺼﻮﺭ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﮐﻮ ﺑﻨﯿﺎﺩﯼ ﺿﺮﻭﺭﯾﺎﺕ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺴﺮ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺫﮨﻨﯽ ﺁﺳﻮﺩﮔﯽ ﺑﮭﯽ۔ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﺴﺎن ﮐﻮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﺍﯾﮏ ﺍﭼﮭﺎ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ ﻧﮩﯿﮟ بن سکتا۔ مسلم سریف کی صحیح روایت میں ہے کہ اللہ تعالی ”شہید“ کا ہر گناہ معاف کردے گا سوائے دَین اور قرض کے۔ یغفر للشہید کل ذنب إلا الدین (رقم: ۱۸۸۹) اسی طرح مشکات شریف میں ہے کہ اللہ تعالی غیبت کرنے والے کی تب تک بخشش نہیں کرے گا جب تک وہ شخص اسے معاف نہ کردے جس کی اس نے غیبت کی ہے۔ وإن صاحب الغیبة لایغفر لہ حتی یغفرہا لہ صاحبہ (مشکات، رقم: ۴۸۷۴)
ہم لوگ ﺟﺐ ﺗﮏ ﮨﺮ اک ﻓﺮﺩ ﮐﻮ ﻣﺴﺎﻭﯼ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻧﺎ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺟﺎﮰ، ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻭﮨﯽ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺣﻘﻮﻕ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﮞ ﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮨﻮﮞ، ﺧﻮﺍﮦ ﯾﮧ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ ﻃﺒﯿﻌﯽ ﮨﻮ ﯾﺎ ﻣﺎﻟﯿﺎﺗﯽ ﯾﺎ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ۔
مغرب ممالک میں اور مشرقی مممالک میں بھی وومن ڈے کو اس طرح سے پیش کیا جاتا ہے جیسے کو جنگ ہو رہی ہے خواتین کے حقوق کی بات کرنے والے گروہ میری نظر میں وہ اسلامی فوبیا کے شکار ہیں وہ احساس کمتری میں اس طرح سے ڈوب چکے ہیں کے اسلام نے جو حقوق عورت کو دیئے ہیں وہ حقوق ان لوگوں نے نہیں دیئے۔ مغربی ممالک میں عورت کا جاب کرنا بے حد ضروری ہے۔
2012 کے ایک غیر جانبدارانہ جائزہ کے مطابق یورپ میں 14 فیصد خواتین کو دوران ملازمت محض عورت ہونے کی بنا پر تعصبات کا نشانہ بننا پڑا۔
جرمنی میں خواتین پر جنسی تشدد اور ہراسانی کی شرح 58 فیصد ہے ، جب کہ پولینڈ میں ایک تحقیقی جائزہ میں حصہ لینے والی 451 خواتین میں سے 88 فیصد پندرہ سال کی عمر کے بعد کسی نہ کسی شکل میں جنسی ہراسانی اور تشدد کا شکار رہیں ۔ ہالینڈ میں ہراسانی کے حوالہ سےگیارہ سو خواتین سے جمع کردہ معلومات کی روشنی میں دن کی روشنی میں گلیوں اور بازاروں میں 94 فیصد خواتین ہراسانی کا شکار ہوئیں۔
انڈیا میں گزشتہ دنوں درجنوں مسلمان خواتین یہ جان کر حیران رہے گئیں کہ ان کے نام آن لائن پر قابل فروخت خواتین کی فہرست میں ڈال دیئے گئے ہیں۔
سولی ڈیلز’ کے ایپ اور ویب سائٹ کو دیکھکر جس میں خواتین کی تصاویر اور ان کے ‘پروفائز’ یا نجی معلومات کو عام کیا اور انھیں ‘ڈیلز آف دی ڈے’ بنا کر پیش کیا گیا ہے انڈیا میں مسلم خواتین کا یہ کہنا ہے کے کچھ گروہ یہ کام مسلم خواتین کو ہراساں کرنے کے لیے یہ کام کرتے ہیں ۔۔ ہمارے پاکستان میں لبرل کلچر والی خواتین کھانا نہیں بناوں گی جوتے نہیں بتاوں گی کپڑے نہیں دھوں گی وغیرہ وغیرہ پر بے وجہ کی دھونس جماتی نظر آتی ہیں ۔۔اللہ ربالعزت ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے آمین ۔۔
۔ ‎@MSA47

Leave a reply