طالبان کی تیز رفتار پیش قدمی سے جوبائیڈن انتظامیہ پریشان

واشنگٹن: افغان طالبان کی تیز رفتار پیش قدمی نے نہ صرف دنیا کے بیشتر ممالک کو حیرت میں ڈال دیا ہے بلکہ صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ کو بھی پریشان کر دیا ہے-

باغی ٹی وی : غیر ملکی میڈیا کے مطابق افغان حکومت کے خاتمے کی رفتار اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی افراتفری نے صدر جوبائیڈن کو بطور کمانڈر انچیف انتہائی مشکل صورتحال سے دوچار کردیا ہے۔

امریکی صدر بائیڈن نے تسلیم کیا ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے تیز ترین پیش قدمی حیران کن تھی، جبکہ افغان و دیگر غیر ملکیوں کے افغانستان سے انخلاء میں تاخیر کی زمہ دار اشرف غنی کی حکومت ہے۔

امریکی انٹیلی جنس حکام کی جانب سے محض چند روز قبل کیے جانے والے دعوے میں کہا گیا تھا کہ آئندہ 30 روز کے اندر طالبان کابل کا دیگر شہروں سے رابطہ منقطع کرسکتے ہیں اور 90 روز میں کابل پر قابض ہوسکتے ہیں۔

طالبان نے اپنی جنگی حکمت عملی سے امریکی انٹیلی جنس کے بھی تمام دعوؤں کو یکسر غلط ثابت کردیا ہے جس کی وجہ سے جوبائیڈن کو ری پبلکن سمیت دیگر اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے-

رپورٹس کے مطابق جوبائیڈن انتظامیہ کی ناکامی ہی کا نتیجہ ہے کہ امریکی افواج کے محفوظ انخلا کا منصوبہ ہنگامی بنیادوں پر اںخلا کا منصوبہ بن گیا ہے بائیڈں گزشتہ کئی ماہ سے دکھائی دینے والے واقعات کو نہ صرف دیکھنے میں ناکام رہے بلکہ حالات کو ان کی حقیقی شدت کے بجائے کم نوعیت کا بتاتے رہے۔

موجودہ امریکی انتظامیہ کے اعلیٰ حکام نے تسلیم کیا ہے کہ وہ افغان سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کی برق رفتاری دیکھ کر قدرے محتاط ہو گئے تھے۔

اس حوالے سے امریکی سیکریٹری خارجہ انتھونی بلنکن نے سی این این کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ ہم نے دیکھا کہ افغان فورسز ملک کا دفاع کرنے میں قطعی ناکام ثابت ہوئیں اور یہ سب کچھ ہمارے اندازے سے کہیں زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ ہوا۔

رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس کے سینئر عہدیداران کا کہنا ہے کہ صدر جوبائیڈن گزشتہ روز کیمپ ڈیوڈ میں رہے اور وہیں انہوں نے افغانستان کی صورتحال پر بریفنگ لی امریکی صدر نے اپنی قومی سلامتی کی ٹیم کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ میں ہی افغانستان کی صورتحال پر مشاورت بھی کی۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق آئندہ چند روز میں اس بات کا تعین ہو جائےگا کہ امریکہ موجودہ صورتحال میں کیا کچھ کرسکتا ہے؟ اورکچھ کر بھی سکتا ہے یا نہیں؟-

Comments are closed.