تمام تعریفیں اس ذات کے لیے جو وحدہٗ لاشریک ہے۔ جس کی ذات و صفات میں کوئی بھی شریک نہیں ہے۔ جو یکتا اور واحد ہے۔ جو اتنا خوبصورت ہے کہ کوئی آنکھ اس کی تجلی برداشت نہیں کر سکتی۔ سوائے اس کے جس آنکھ کو وہ چاہے۔
اور کروڑوں بار درود و سلام ہو محمد و آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ جو وجہ تخلیق کائنات ہیں۔
ہمارے نبی حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم تک اسلامی تعلیمات پہنچانے کے لئے بہت ساری تکلیف برداشت کیں۔ ایسی تکالیف جن کو سہنا ایک عام انسان کے بس سے باہر ہے لیکن وہ تو رحمت اللعالمین اور خدا کے محبوب ہیں۔اور یہ زبان ان کی تعریف کرنے سے قاصر اور یہ قلم لکھنے سے معذور ہے۔

جب لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے ہم تک اسلام پہنچانے کے لئے بہت ساری تکالیف برداشت کی ہیں بدلے میں آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں کچھ ایسا بولیں کہ ہم اس کا کچھ نہ کچھ بدلہ اتار سکیں۔ تب قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی
قل لا أسألكم عليه أجرا إلا المودة في القربى
کہہ دو کہ میں اس کا تم سے صلہ نہیں مانگتا مگر (تم کو) قرابت (اہل بیت)کی مودت (تو چاہیئے)

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مودت ہوتی کیا ہے۔۔۔؟
کسی کی عظمت کے اعتراف کی بنا پر اس سے اخلاص اور پیار، محبت، پرخلوص دوستی، مخلصانہ اور بے غرض محبت مودت کہلاتا ہے
اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ ہم کس حد تک ان سے مودت کا حق ادا کر رہے ہیں
محرم حسینؑ سے منسوب نہیں ہے پورا اسلام ہی حسینؑ سے منسوب ہے لیکن چلو اس ایک مہینے میں ہی کچھ ان کی یاد سے دل کو آباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
محرم میں ہم امام حسینؑ کو کتنا سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں یہ میرا مجھ سمیت آپ سب سے سوال ہے
جواب آئے گا بالکل بھی نہیں۔۔۔۔

آپ کی روز مرہ زندگی میں کتنی تبدیلی آئی ہے ؟
کیونکہ یہ دن خاص طور پر نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ہیں۔ یہاں یہ چیز بھی قابل ذکر ہے کہ ان کی یاد میں صرف آنسو ہی بہادو تو اس سے یہ حق ادا ہوتا ؟ بلکہ حسینؑ کے فلسفے کو سمجھنے کی ضرورت ہے حسینؑ کی فکر کو حسینؑ کی سوچ کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ جو کہ ہم کوشش بھی نہیں کرتے۔
حسینؑ کا فلسفہ انقلاب کسی خاص منطقہ اور زمانہ کے لئے خاص نہیں ہیں بلکہ رہتی دنیا تک لوگوں کے دلوں کو یاد خدا پیغمبران خدا کے پاکیزہ مکتب اور فکری واصولی اقتدار کو زندہ کیا۔ حقیقت میں آپ ہرقرن کے روشن ضمیر لوگوں کے رہنما اور رہبر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
آپ کا منشور باطل خداؤں کی نفی اور ذات الہی کا اقرار ہے
امام حسین کا ہر باضمیر اور حریت پسند انسان کی گردن پر حق ہے کہ آپ کے مشن کو زندہ وتابندہ رکھا جائے اور یہ ہم تب ہی کرسکیں گے جب تک امام حسینؑ کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

بقول علامہ اقبال
کربلا کی ریت پر سویا ہوا ہے دیکھ لو
مسجدوں میں ڈھونڈتے ہو کون سے اسلام کو

اگر حسینؑ کو سمجھو گے تو تب ہی اپکی مسجد میں بھی اسلام ہو گا اپکی روح میں اپکی زندگی میں بھی اسلام ہوگا
فرمان مصطفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ
” میرا حسینؑ کشتی نجات ہے۔۔۔! نوح کے سفینے کی مانند ہے چراغِ مصباح و ہدایت ہے

ایک اور جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے حسینؑ کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے خدا کو تکلیف دی۔ اور حسینؑ کو بھلا کے ہم رسولؐ کو تکلیف ہی تو دے رہے ہیں۔۔۔۔

کبھی رسولؐ کے کاندھے پر کبھی نوک سناں پر
حسینؑ آپ کو جب بھی دیکھا سربلند دیکھا

حسین کو ماننے کے لئے مسلمان ہونا ضروری نہیں بلکہ انسان ہونا ضروری ہے حسین محسن انسانیت ہیں۔ جس نے اپنا سب کچھ لٹا کر صرف اسلام نہیں بلکہ انسانیت بچائی۔ ایک غیرت مند قوم کبھی اپنے محسن کو نہیں بھولتی۔

ہم سب کو اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے حسینؑ کے فلسفہ حیات کو کس حد تک یاد رکھا ہوا۔

یہ دن نواسہ رسولؐ سے خاص طور پر منسوب ہیں اسلیے شیعہ سنی سے بالاتر ہوکر سوچیے
اگر رسولؑ سے محبت ہے تو پھر حسین سے محبت کیوں نہیں حسینؑ کی یاد سے یہ دل غافل کیوں ہیں۔ اتنا یاد رکھنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ دونوں میرے بیٹے حسنؑ اور حسینؑ جنت کے سردار ہیں اگر تمہارے دل میں ان کی محبت موجود نہیں ہے تو کس منہ سے جنت کی خواہش رکھتے ہو۔
کیونکہ کسی بھی علاقے کا جو سردار ہوتا ہے اس کی اجازت کے بغیر اس علاقے میں داخل نہیں ہوا جاسکتا تو سردار کو جانے بغیر اس کے علاقے کی حدود میں کیسے داخل ہو سکو گے۔ یہ سرداری کائنات رسول نےانکو سونپ دی ہے۔ تو ان کو راضی کیے بغیر ہم جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ سکتے۔ جنت میں جانا تو دور کی بات ہے

حسین کے ذکر سے روح کو سرور ملتا ہے
اس نام کو لکھنے سے قلم کو غرور ملتا ہے
اس کی تعریف میں کیا لکھوں گی شاہی
جس کو سوچنے سے ہی کوہ طور ملتا ہے

بحثیت ایک باشعور انسان اور ایک مسلمان کی حیثیت سے اس مہینے میں فرقہ واریت پر اکسانے والے تمام لوگوں کی مذمت کی جائے۔ فرقہ واریت کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں اور نہ ہی کوئی یہ اچھا اخلاقی عمل ہے ۔اہل بیت ہوں یا صحابہ اکرام سب ہی واجب الاحترام ہیں
ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کریں اور دینی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کریں

@Ik_fan01

Shares: