ابھی نور مقدم کے قتل کو تین ہفتے ہی گزرے ہیں کہ ہمیں اس سے ملتے جلتے ایک اور سانحے نے آن گھیرا ہے اس جشن آزادی پر گریٹر اقبال پارک میں ایک ایسا سانحہ رونما ہوا ہے جس نے رونگٹے کھڑے کر دیے ہیں شوشل میڈیا پر ایک ویڈیو گردش کر رہی تھی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چار سو کے قریب لوگوں نے ایک ٹک ٹاکر عورت کو گھر رکھا ہے اور اس سے ناشائستہ حرکات کر رہے ہیں کچھ لوگ اس کو ہوا میں اچھال رہے ہیں جیسے کسی کھلونے سے کھیلتے وقت اس اچھالا جاتا ہے اس کے بعد تو تمام حدوں کو عبور کر دیا گیا اور اس خاتون کے کپڑے پھاڑ دیے گئے یہ ویڈیو دیکھنے کے بعد میری ہمت جواب دے گئی اور دوبارہ اسے نا دیکھ سکا شائد کتنے ہی ایسے ماں باپ ہوں گے جنھوں نے اپنی بچیوں کو مستقبل میں اعلی تعلیم دلوانے کے خواب دیکھ رکھے ہونگے مگر یہ واقعہ دیکھنے کے بعد شائد وہ بھی یہ بات ماننے پر قائل ہو جائیں کہ پاکستان اب عورتوں کے لیے محفوظ نہیں رہا کیونکہ عثمان مرزا کیس کے بعد نور مقدم والا واقعہ رونما ہوا اس سے پہلے سیا لکوٹ موٹروے سانحہ ابھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ تھا جو چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ عورتوں کو اس ملک میں صرف مال غنیمت کی نظر سیے ہی دیکھا جاتا ہے ۔ منگل کے روز پاکستان کے سوشل میڈیا پر لاہور میں کئی مردوں کی جانب سے ایک لڑکی کو سرعام ہراساں کیے جانے کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد اب یہ بحث ایک بار پھر شروع ہو گئی ہے کہ کیا پاکستان خواتین کے لیے محفوظ ملک ہے
منگل کے روز متعلقہ خاتون نے لاہور کے تھانہ لاری اڈہ میں درخواست دی کہ وہ 14 اگست کو شام ساڑھے چھ بجے اپنے ساتھی عامر سہیل، کیمرہ مین صدام حسین اور دیگر چار ساتھیوں کے ہمراہ گریٹر اقبال پارک میں یوٹیوب کے لیے ویڈیو بنا رہی تھیں کہ یکدم وہاں پر موجود تین چار سو سے زیادہ افراد کے ہجوم نے ان پر حملہ کر دیا۔
درخواست کے مطابق خاتون اور ان کے ساتھیوں نے ہجوم سے نکلنے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہے اور اسی دوران وہ گارڈ کی جانب سے جنگلے کا دروازہ کھولے جانے کے بعد اندر چلے گئے لیکن ہجوم اتنا زیادہ تھا کہ لوگ جنگلے کو پھاڑ کر ان کی طرف آئے اور کھینچا تانی کی
شوشل میڈیا پر اس واقعے کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور 400#اس وقت ٹرینڈ کر رہا ہے جس میں ان چار سو درندوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جنھوں نے اس عورت پر حملہ کیا-اور حکومت وقت اور دوسرے اداروں سے اس بات کی اپیل کی جا رہی ہے کہ جلد از جلد ان درندوں کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ لوگوں کا ریاست اور ریاستی اداروں پر اعتماد بحال ہو سکے اس کے علاوہ اس طرح کہ قوانین بنائے جائیں جس سے عورتوں کو گھر سے نکلتے وقت اس بات کی پریشانی نہ ہو کہ اس کس چوک میں بھڑیوں کی طرف سے گھیر لیا جائے گا-بحثیت معاشرہ ہمیں اس وقت اندازہ ہی نہیں کہ ہم جہالت کی کن پستیوں میں رہ رہے ہیں ہمیں اپنے آنے والی نسلوں کی اس انداز میں تربیت کرنی ہے کہ وہ ایک انسانی معاشرہ تشکیل دے سکیں شائد اس کے لیے ابھی کئی صدیاں درکار ہوں گی-اس تحریر کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ تمام مرد ایک ہی طرز کہ یقیناً جہاں اچھائی ہوتی ہے وہاں برائی بھی ہوتی ہے اسی طرح وطن عزیز میں کئی اعلی اخلاق کے حامل افراد بھی موجود ہیں اس کی تعمیر و ترقی میں حصہ لے رہے ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے-
ٹویٹر-mohsenwrites@