فلسطین اسلامی ممالک کی فہرست میں ایک مسلمان ملک اور مسجد الاقصیٰ کا تعارف ہے۔ مسجد اقصی کو مسلمانوں کا قبلۂ اول مانا جاتا ہے۔مسجد اقصٰی مشرق میں یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ جس پر ان دنوں اسرائیل قابض ہے۔اسرائیل کا فلسطین پر قبضہ فلسطین کے تاریخی واقعات میں سر فہرست ہے۔
اسلامی ملک فلسطین کی سرحدیں لبنان، اردن، شام اور مصر سے ملتی ہیں۔
لبنان اور مصر کے درمیان واقع کا علاقہ فلسطین کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کے آدھے حصّے پر اب اسرائیل کی حکومت ہے۔
کہا جاتا ہے کہ 1948ء سے پہلے یہ تمام علاقہ فلسطین کا حصہ تھا۔ 1948ء میں اسرائیل نے فلسطین پر قبضہ کر لیا اور یہ قبضہ تاحال جاری ہے۔
اس سے پہلے اس علاقے پر فرانسیسی اور انگریز حکومت کرتے رہے ہیں۔
اس ملک کا دار الحکومت بیت المقدس ہے۔جس پر 1967ء میں اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا، اور اس دوران حضرت عمر فاروق ؓ نے مسجد اقصٰی کی بنیاد رکھی۔خدا کی توحید اور وحدانیت پر ایمان کی تبلیغ کا آغاز پیغمبر حضرت ابراہیمؑ کی فلسطین میں آمد سے ہوا۔حضرت ابراہیمؑ کا مزار بھی سر زمین فلسطین پر ہے۔بیت المقدس کو اسرائیلی یروشلم بھی کہا جاتا ہے،
مسلمانوں کا قبلہ اول اسی جگہ واقع ہے۔ اور اس شہر کو مسلمان، یہودی ، اور مسیحی جو کہ مختلف مزاہب رکھتے ہیں، اس کو آج بھی مقدس مانتے ہیں۔

فلسطین کو انبیاء کرام علیہم السلام کی سر زمین بھی کہا جاتا ہے، دین اسلام کی اشاعت کے سلسلے میں کئی انبیاء کرام حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام، ،حضرت سلیمان، حضرت یحییٰ علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام اور بہت سے دیگر پیغمبر اس مقدس سر ذمین سے گزرے ہیں ۔تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ فلسطین کی سرزمین پر مسلمان، عیسائی اور یہودی مقیم رہے ہیں۔
جبکہ آج کل اسرائیل اور مغربی کنارے میں یہودی اسرائیلی شناخت کرتے ہیں۔قابض ملک اسرائیل کے موجودہ عرب شہری اپنی شناخت اسرائیلی، فلسطینی یا عرب کے طور پر کرواتے ہیں۔
اکثریت آبادی مسلمان ہے، اور سرکاری زبان عربی ہے۔
اہم شہر غزہ، بیت لحم، الخلیل اور
ادیان اسلام ہیں۔

فلسطین دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے۔اور اس کی آزادی کی جنگ اس کے وجود میں آتے ہی شروع ہو گئی تھی جو ابھی تک جاری ہے۔ دنیا کی ہرزبان کے ادب میں اس کی آزادی کی جدوجہد پر کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔
اور آج کل اسرائیلی جارحیت کے تحت یہ سرزمین اپنے اوپر ہونے والے ظلم و ستم کے باعث خبروں کی زینت بنی ہوئی ہے، اپنی آزادی کی جنگ کے دوران اس ملک میں کئی جنگیں، عوامی تحریکیں اور بڑے پیمانے پر شہریوں پر مظالم اور ان کے قتل عام ہوتے رہے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد ساڑھے 7 لاکھ فلسطینیوں کو اپنی آبائی سرزمین فلسطین سے نکال دیا گیا، اور مقامی لوگوں نے اپنی سرزمین چھوڑ کر قریبی ممالک مصر ، عراق، لبنان اور شام کی جانب رخ کیا۔ اور جو لوگ اس وقت رہ گئے تھے، وہ اسرائیلی ریاست کے تسلط میں ہیں، جن کے ساتھ آج تک اسرائیلی مظالم جاری ہیں۔
اسرائیلی دہشت گردی گزشتہ 73 سالوں سے جاری ہے، جس کا نتیجہ ہر بار معصوم جانوں کا ضیاع اور نقل مکانی کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔
رواں سال بھی اسرائیل فوج نے اس بار رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں ليلۃ القدر کے موقع پر مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کے علاقے شیخ جراح سے فلسطینیوں کو زبردستی نکالا، اور پر تشدد حملے شروع کیے، ان حملوں کے دوران رواں برس 7 سے 18 مئی 2021 ء کی سہ پہر تک 34 خواتین اور 58 بچوں سمیت 201 افراد جاں کی بازی ہار گئے۔
اسرائیل کی یہ کاروائیاں کئی برسوں سے جاری ہیں، اور تمام امت مسلمہ اس پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق سال 2017 ء میں تقریباً 30 لاکھ کے قریب فلسطینی شہری بے آسرا اور گھروں کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، کیوں کہ ان کے گھر اسرائیلی جارحیت کے دوران مسمار کر دئیے گئے ہیں، اور شہر میں آئے دن یہودی بستیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پس سات دہائیوں سے مظالم کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔
گذشتہ کئی روز سے فلسطینی اپنے گھروں تک محدود ہو کے رہ گئے تھے، کیونکہ باہر نکلنا بھی موت کا باعث بن سکتا تھا۔
اسرائیلی دہشت گردی کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر مشرق وسطیٰ مسلمانوں کے خون سے سرخ ہو چکی ہے۔خاص طور پر اسرائیلی افواج نے اس دوران معصوم بچوں کو نشانہ بنا کر مسلمانوں کی نسل کشی کی طرف قدم بڑھائے ہیں۔

اس کے علاوہ غزہ شہر دہشت گردی کے دوران بمباری کے نتیجے میں بری طرح تباہ اور متاثر ہوا ہے۔تاہم گزشتہ دنوں اسرائیل کے ساتھ تازہ فلسطینی جھڑپیں شروع ہونے کے بعد سے حماس کے اسرائیلی جارحیت کے مد مقابل انتہائی منظم خودکش حملوں کے سلسلے کو بہت پذیرائی ملی ہے، اور تمام فلسطینیوں نے سکھ کا سانس لیا ہے، حماس اور اسرائیل اپنی اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
دنیا میں حماس فلسطینیوں تک یہ پیغام پہنچانے میں کامیاب ہو چکا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی لڑائی کے لیے اور یروشلم، (مسجد اقصٰی) اور فلسطینی ریاست کے حقوق کے لیے قربانیاں دینے کے لیے ہمیشہ تیار ہے۔
حماس کی طرف سے دنیا کیلئے ایک چھوٹا سا پیغام ہے کہ اس کے خدا کی وحدانیت پر یقین رکھنے والے بہادر جنگجو ”آخری دم تک یروشلم کے لیے لڑتے رہیں گے”
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اسرائیلی جارحیت کے خلاف امن و امان کی کارکردگی میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے،
اب وقت آگیا ہے کہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف اور مسجد اقصیٰ کے تحفظ کی خاطر مسلمانوں کو اٹھ کھڑے ہونا ہے۔

@_aqsasiddique

Shares: