18 اگست کو اچانک سے سوشل میڈیا پہ کچھ تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہوئیں جس میں ٹک ٹاک سٹار عائشہ اکرم نے دعویٰ کیا کہ انھیں 400 مردوں کی جانب سے حراس کیا گیا۔ یہاں پاکستان کے لیے ایک انتہائی تشویشناک صورتحال پیدا ہوگئی کیونکہ کچھ لوگوں یا یوں کہوں تو غلط نا ہوگا کہ نمک حراموں کی طرف سے اس واقعہ کا سارا ذمہ پاکستان کے سر ڈالتے ہوئے یہ کہا گیا کہ یہ ملک عورتوں کے لیے محفوظ نہیں۔

ایک معروف صحافی کی جانب سے جب یہ جملہ کہا گیا کہ خوش قسمت ہے وہ انسان کہ جسے اللّٰہ نے اس ملک میں بیٹی نہیں دی تو بہت افسوس ہوا۔ کیونکہ پاکستان نے تو ہمیشہ سب کو تحفظ دیا ہے۔ یہ ملک تو بنا ہی ہماری حفاظت کے لیے ہے۔

پھر جنسی تشدد، حراسگی اور ایسے تمام واقعات کا ذمہ دار پاکستان نہیں بلکہ اس ملک میں پلنے والے وہ جانور اور وہ درندے ہیں جو عورت کو عورت سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ پوری دنیا میں سب سے زیادہ عورت کے لیے غیر محفوظ ملک بھارت ہے۔ جہاں ایسے واقعات عام سے عام تر ہیں۔ اب اسی سے اندازہ لگا لیں کہ ہم کتنے خودغرض اور ناشکرے ہیں جو اپنے ہی ملک کو بار بار کٹہرے میں لا کر کھڑا کر دیتے ہیں۔

خیر مینار پاکستان والے واقع پر پہلے تو بہت سے لوگوں نے تشویش اور غصے کا اظہار کیا لیکن پھر جیسے جیسے حقیقت سے پردہ اٹھنے لگا تو ایسی چند تصویریں اور ویڈیوز منظرعام پر آئیں جس میں دیکھا گیا کہ کس طرح عائشہ اکرم خود انھیں غیر مردوں جن پر محترمہ نے حراسگی کا الزام لگایا چپک چپک کے سیلفیاں بنارہی تھی۔

عوام کو یہ سمجھنے میں بالکل بھی وقت نہیں لگا کہ بی بی نے یہ سارا ڈرامہ رچایا تھا تو صرف اور صرف ایک سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے۔ کیونکہ اگر اس واقع کا حقیقت سے کوئی تعلق ہوتا تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب واقعہ 14 اگست کو ہوا تو محترمہ نے 4 دن کی خاموشی کیو سادھی؟ 4 دن بعد ہی کیوں یاد آیا کہ مجھے 400 لوگوں نے حراس کیا تھا؟ اسی وقت اپنے مجرموں کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھائی؟

ایک طرف الزام تراشیاں جاری تھیں تو دوسری طرف راتوں رات عائشہ اکرم کے ٹک ٹاک پر تیس ہزار سے زائد فولوورز کا اضافہ بھی ہوا۔ یعنی وہ مقصد پورا ہوگیا جس کے لیے یہ سارے دو نمبر ڈرامے کا سہارا لیا گیا۔ انتہائی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہارے معاشرے میں ایسی خواتین بھی موجود ہیں جو صرف چند ہزار فولوورز بڑھانے کے لیے کچھ بھی کرجاتی ہیں۔

پر ایک بات واضح کرتی چلوں کہ یہ قوم اپنی ہر اس ماں، بہن اور بیٹی کے ساتھ کھڑی ہے جو حقیقتاً ایسے واقعات کا شکار ہوتی ہیں۔ پھر عائشہ اکرم جیسی خواتین جو سستی شہرت کے لیے اپنے عورت ذات ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھاتی ہیں ایسی عورتوں کو یہ قوم مسترد کرتی ہے۔

کیونکہ یہی چند عورتیں عورت کے نام پر سیاہ داغ ہیں۔

@SeharSulehri

Shares: