کہا گیا تھا کہ مہنگائی حکومت میں بیٹھے مافیا کی وجہ سے ہوتی ہے۔ جو اپنے مفاد کی خاطر ذخیراندوزی کرتے ہیں اور پھر قلت کا فائدہ اٹھا کر منہ مانگے داموں پر اشیاء فروخت کرتے ہیں
کہا گیا تھا کہ قرض کرپشن کک بیک اور بھتہ خوری کے لیے لیا جاتا ہے۔
کہا گیا تھا کہ بیروزگاری ناقص حکومتی پالیسوں کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتی ہے۔
کہا گیا تھا کہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینا غیر ملکی ایجنڈے کی تکمیل ہے تاکہ ملک غیروں کا ہمیشہ کے لئے محتاج رہے اور ان کی ڈکٹیشن پر چلے
کہا گیا تھا کہ بجلی گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو تو سمجھو حکمران کرپٹ ہیں
کہا گیا تھا اسٹاک ایکسچینج گرجائے تو اس کی وجہ حکومتی ناقص معاشی پالیسی ہوتی ہے
کہا گیا تھا کہ میٹرو اور اورنج ٹرین سفید ہاتھی منصوبے ہیں۔
کہا گیا تھا کہ موٹروے انڈرپاس اس اوورہیڈبرج اور فلائی اوور سے قوم نہیں بنتی
کہنے والے جب یہ سب کہہ رہے تھے تو شاید ان کو یہ پتہ نہ تھا
کہ بہت جلد ان کا کہا انہیں کے گلے کی ہڈی بن جائے گا۔ اور انہیں اپنے ایک ایک کہے پہ ندامت اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ درج بالا نکات میں سے ایک نکتہ بھی ایسا نہیں جن کو دو یا چار سے ضرب دیکر
عوام کے آگے نہ رکھا گیا ہو۔ اقتدار سے باہر رہ کر زبان چلانا بہت آسان ہوتا ہے۔ ملک خالہ جی کا گھر نہیں ہوتا یہاں سو طرح کے حقیقی مسائل ہوتے ہیں
اور ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش میں نئے مسائل بھی جنم لے لیتے ہیں۔ حکومت ایسا جال ہوتا ہے جس میں سانس تو لی جا سکتی ہے۔ مگر باہر نہیں آیا جا سکتا۔ پی پی پی اور مسلم لیگ پر لعن طعن کرنے والوں کو اقتدار میں آکر پتہ چل گیا ہے۔ کہ اگر ہم سچے تھے تو جھوٹے یہ بھی نہیں تھے۔ پچھلی دونوں حکومتیں اتحادیوں کے زور بازو پر ضرور بنیں۔ مگر ان کے پاس سادہ اکثریت ذاتی طور پر موجود تھی۔ اس کے باوجود انہوں نے ایک ایک دن گن کے گزارا اور جیسے تیسے مدت پوری کی۔ موجودہ حکومت کے پاس نہ تو ذاتی طور پر سادہ اکثریت ہے۔
اور نہ ہی ایسے اتحادی ہیں جو کسی بھی لحاظ سے ان کے لیے فطری حثیت رکھتے ہو ں ایک اتحادی بھی سلپ ہوگیا تو خان منہ کے بل گر جائے گا۔ مہنگائی کا طوفان ان کے اپنے لوگوں نے برپا کیا ہوا ہے۔ تیاری اگلے الیکشن کی ہو رہی ہے اگر مافیا کو من مرضی نہ کرنے دی گئی
تو جہانگیر کا تیز ترین جہاز نہیں اڑ سکے گا۔ اور اگلا الیکشن خطرے میں پڑ جائے گا۔ آنکھیں بند کرکے مہنگائی کی اجازت چند ہفتوں کے لیے دی گئی ہے۔ تاکہ اگلے الیکشن کے لیے فنڈز کا مسئلہ حل ہو جائے۔ یہ مسئلہ حل ہوتے ہی ستمبر کے آخر تک
روزمرہ استعمال کی گیارہ اشیاء کو معمول پر لایا جائے گا۔ اور کامیابی کا جشن منایا جائے گا
کہ مہنگائی کنٹرول ہو گئی۔ غریب عوام کے ساتھ بہت بڑا ہاتھ کیا گیا۔ کتیا چوروں کے ساتھ مل چکی ہے۔ مڈٹرم الیکشن کا فیصلہ اندریں خانہ ہوچکا ہے۔ کوشش یہی ہے کہ بیساکھیوں سے جان چھوٹ جائے اور ایک مضبوط حکومت دوبارہ بنائی جائے تاکہ اتحادیوں کی بلیک میلنگ سے نجات مل جائے۔ دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔ مگر یہ یاد رہے کہ عوام پر جو پچھلے اٹھارہ ماہ سے ظلم و ستم ڈھایا جا رہا ہے
یہ کرب ان کے دل و دماغ بلکہ خون کا حصہ بن چکا ہے۔ جسے کسی بھی لالی پاپ سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت نے جو بربادی کرنی تھی کر چکی۔ اب عوامی ردعمل کا ٹائم ہے۔ اب عوامی سونامی تیار ہو چکا ہے
عوام حکومتی نااہلی سے واقف ہو چکی ہے۔ تالیاں بجانے والے بھی نادم ہیں۔ اور تھپکی دینے والے بھی شرمندہ ہیں۔ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ غلط گھوڑے پر ہاتھ رکھ بیٹھے ہیں
میدان خالی کرانے والے بھی تیار ہیں۔ اور گھوڑا بھی بھاگنے پہ راضی ہے عوام تو پیں نکال کر انتقام نہیں لیتی۔ جس طرح لاتی ہے اسی طرح بھگا دیتی ہے.
@joinwsharif7

Shares: