کسی بھی معاشرے کو سدھانے کیلئے مختلف قوانین بنائے جاتے ہیں۔ ان قوانین کا مقصد معاشرے میں موجود جرائم کو روکنا اور ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل ہوتا ہے۔ یہ قوانین ہمارے منتخب ارکان اسمبلی پارلیمنٹ میں بیٹھ بناتے ہیں۔ جب کوئی بھی قانون متفقہ طور پر یا اکثریت رائے سے منظور ہو جاتا ہے تو اس کی پاسداری ملک میں رہنے والے تمام افراد پر لازم ہو جاتی ہے ۔ قانون کی عمل داری یا آپ کہہ سکتے ہیں کہ ریاست کی رٹ کو بحال رکھنے کیلئے دنیا بھر میں ایک منعظم نظام رائج ہے۔ اس نظام میں مختلف سکیورٹی اور سو لین ادارے کام کرتے ہیں۔ ان تمام اداروں میں ایک ادارہ پولیس کا بھی ہے۔
پولیس ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے وہ عزت و احترام حاصل نہیں کر سکی جس کی وہ مستحق ہوتی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں ایک وجہ پولیس رشوت کے نام پر غنڈہ گردی ہے۔ اب یہاں سوال بنتا ہے کہ رشوت کے نام پر کرپشن تو ہر ادارے میں ہو رہی ہے لیکن پھر پولیس ہی ذیادہ بدنام کیوں؟
آپ سیاستدانوں کو دیکھ لیں کتنی کرپشن کر رہے ہیں۔ آپ ججز کی مثالیں دیکھ لیں۔ آپ اعلی بیوروکریسی کو دیکھ لیں۔ کرپشن اور رشوت خوری تو ہر جگہ کسی نا کسی شکل میں موجود ہے لیکن ان تمام کے جرائم کو لے کر سارے ادارے کو بدنام تو نہیں کیا جاتا جبکہ پولیس میں چند گنتی کے لوگوں کی وجہ سے ساری پولیس فورس کو ہی کیوں مشکوک نظر وں سے دیکھا جاتا ہے؟
پولیس پر عوام کا عدم اعتمام کسی ایک صوبہ یا کسی ایک شہر تک محدود نہیں ۔ یہ سارے ملک میں ایک جیسا ہے۔اس کی ایک وجہ جو مجھے سمجھ آئی شاہد سیاستدانوں کا پولیس جیسے پروفیشنل ادارے پر اثررسوخ ہو سکتا ہے یا پھر میرٹ کی بجائے سفارشی کلچر بھی اسکی ایک بڑی وجہ ہو سکتی ہے۔
اگر چاروں صوبوں کی پولیس کو ہم الگ الگ درجہ بندی یا کارکردگی کی بنیاد پر پرکھیں تو اس حساب سے پختون خواہ کی پولیس نے پہلے کی نسبت عوام میں اپنی کھوئی ہوئی ساخت کافی حد تک بحال کی ہے۔ اس کا سارا کریٹ مرحوم IGKPKناصر دورانی اور سابقہ وزیر اعلی پختون خواہ پرویز خٹک صاحب کو جاتا ہے ۔ پختون خواہ پولیس اس وقت چاروں صوبوں کی پولیس کیلئے رول ماڈل ہے۔ گو کہ ابھی بھی وہ معیار نہیں جس کو ہم جدید تقاضوں سے لیس کہہ سکیں بہرحال رشوت خوری اور غنڈا گردی کے اعتبار سے کافی بہتری آئی ہے۔
اگر ہم پنجاب پولیس کو دیکھیں اس میں کافی بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ پنجاب پولیس کوسابقہ حکمرانوں نے مخالفین کے منہ بند کروانے اور مخالفین کو ماورائے عدالت قتل کروانے کیلئے بہت استعمال کیا۔ ان اقدام نے پنجاب پولیس کو بطور ادارہ بہت نقصان پہنچایا۔آپ 2014 ماڈل ٹاؤن واقعہ ہی دیکھ لیں۔جس طرح حاملہ خواتین کو گولیاں ماری گئی دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس واقعہ کو مکمل سیاسی سرپرستی حاصل تھی۔ ایسے واقعات اداروں کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔
اس وقت پنجاب حکومت کو پنجاب پولیس میں بہتری کاچیلنج درپیش ہے ۔ کیونکہ تحریک انصاف کے منشور میں عدل وانصاف اور اداروں کو سیاسی اثرورسوخ سے آذا کرنا تھا۔ پنجاب پولیس رشوت خوری ۔غنڈا گردی۔ ماورائے عدالت قتل اور سیاسی اثر رسوخ کی وجہ سے بہت بدنام ہو چکی۔یہ اقدام شاہد %10فیصد لوگ کرتے ہوں گے لیکن انکی وجہ سے ساری پنجاب پولیس کو لوگ مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں۔ بزدار حکومت اگر اس چیلنج سے نکل گئی تو تاریخ ان کو سنہرے حروف میں یاد رکھے گی۔ آئی جی پنجاب پولیس کی بہتری کیلئے دن رات محنت کرتے نظر آ رہے ہیں۔ کافی حد تک بہتری نظر آ بھی رہی ہے۔ جس کی مثال حالیہ دنوں میں مینار پاکستان کا واقعہ ہو یا رکشہ میں بیٹھی مسافر خواتین سے بدسلوکی پنحاب پولیس نے چند گھنٹوں میں انتہائی مہارت اور پروفیشنل طریقہ سے جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کیا جس پر وہ شاباش کی مستحق ہے۔
اگر سندھ پولیس کو دیکھا جائے تو ایک ہی بات ذہین میں آتی ہے بھتہ اورسیاسی غلام اور رشوت خور۔ میرا کئی بار کراچی آنا جانا ہوا۔ یقین کریں وہاں پہنج کر اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگتا ہوں۔ آپ راؤ انوار کا کیس دیکھ لیں کیسے بے دردی سے اس نے نقیبﷲ مصود کو قتل کیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق 2011سے 2018کے بھیچ راؤ انوار نے تقریبا 444لوگوں کا encounterکیا تھا۔ اب آپ خود اندازہ لگا لیں اس بندے کی وجہ سے سندھ پولیس کتنی بدنام ہوئی ہے۔
سندھ پولیس سیاسی اثر رسوخ کے زیر اعتاب سمجھی جاتی ہے۔ میرٹ کا فقدان اور سیاسی قیادت کی شہانہ طرز حکمرانی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ سندھ پولیس کو معیاری پولیس نابننے دینے کی ایک بڑی وجہ کرپشن ہے۔ سندھ میں پولیس جیسے ادارے کو جان بوجھ کر مفلوج رکھا جا رہا ہے۔ یہاں سندھ پولیس کی بجائے سیاسی قیادت کو کٹہرے میں کھڑا کرنا ہو گا۔ جب تک سندھ حکومت پولیس کو ٹھیک نہیں ہونے دے گی یہ ممکن ہی نہیں کوئی اعلی افسر اسے ٹھیک کر سکے۔
اسلام آباد پولیس اس وقت دور جدید کے تقاضوں کو پورا کرتی نظر آتی ہے۔ بعض لوگ انکے معیار پر بھی انگلیاں اٹھاتے نظر آتے ہیں لیکن کیپٹل پولیس عالمی معیار اور دور جدید کے تقاضوں کو پورا کرتی نظر آتی ہے اور اسکی ایک اہم وجہ پولیس فورس میں میرٹ اور پڑھے لکھے جوانوں کی شمولیت ہے۔ چند عرصہ پہلے حکومت نے اسلام آباد پولیس کی یونیفارم میں خفیہ کیمرے لگانے کا کہا تھا ۔ اگر یہی معیار سارے پاکستان میں رکھا جائے تو انشاءاﷲ ہماری ساری پولیس بہتر ہو سکتی ہے۔ اگر میرٹ پر بھرتیاں اور پڑھے لکھے لوگوں کو پولیس فورس میں لایا جائے۔ جدید تقاضوں کو دیکھتے ہوئے انکی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ اعلی معیار کی ٹرینگ دی جائے۔ پرانے تھانہ کچہری کلچر کو بلکل ختم کیا جائے اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق FIRسے لے کر کیس کے میرٹ تک ٹریس ایبل بنایا جائے تو کوئی شک نہیں ہماری پولیسنگ کا معیار عالمی معیار جیسا بن جائے۔ اس سارے پراسس میں حکومت وقت کا بہت اہم رول ہے۔
یہاں ان شہداء کو سلام پیش نا کرنا بھی ذیادتی ہو گی جنہوں نے فرائض کی ادائیگی میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ا ﷲ تعالی انکی مغفرت فرمائے اور ان سب کے اہل خانہ کو صبرو جمیل عطا فرمائے۔ آمین
آخر میں اتنا ہی کہوں گا کہ اگر پولیس اور عوام کے بھیچ فاصلے کم کرنے ہیں تو پولیس کو اپنا رویہ بدلنا ہو گا۔ دوستانہ ماحول میں عوام سے بات کرنی پڑے گی۔ عوام کو احساس دلانا ہو گا کہ پولیس ان کی محافظ ہے دشمن نہیں۔ پولیس کا اولین کام بھی عوام کی جان و مال کی حفاظت کرنا ہوتا ہے۔ عوام کو بھی اپنے محافظوں کی عزت کرنی چاہئے۔ ان کے لئے بھی میڈیا کوریج اور سرکاری سطح پر انعامات دینے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ ہر سال ایک دن پولیس کے نام سے قومی سطح پر منایا جائے۔ سکولوں کالجوں میں پولیس بارے بچوں کو بتایا جائے۔ شہداء کی فیملیز کو آنر کیا جائے۔ ان کو بھی معاشرے میں اسی عزت و احترام سے ملا جائے جیسا باقی اداروں کیلئے ہم رکھتے ہیں۔ کیونکہ آخر پولیس بھی تو اپنی ہی ہے۔
شہد تم سے یہ کہہ رہے ہیں____لہو ہمارا بھلا نا دینا
قسم ہے تم کو اے سرفروشوں___لہو ہمارا بھلا نا دینا
وضو ہم اپنے لہو سے کر کے___خدا کے ہاں سرخروں ہیں ٹھہرے
ہم عہد اپنا نباہ چلے ہیں________تم عہد اپنا بھلا نا دینا
@saif__says

Shares: