ٹین ایجرز سے مراد "ایسے لوگ جن کی عمریں 13 سے 19 سال کے درمیان اور وہ لڑکپن سے جوانی کی منزل طرف بڑھ رہے ہوتے ہیں”۔
ہمارے ملک پاکستان میں ٹین ایجرز آبادی کا بہت بڑا حصہ ہیں۔ اگر ہم برِصغیر کی تاریخ دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ٹین ایجرز کو عموماً دبا کر رکھا جاتا ہے۔ ان کی دلچسپی اور شوق کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ ان کو ذہنی طور پر مجبور کردیا جاتا ہے۔جس کے ان کے ذہن پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اور وہ اپنی اس پریشانی کو ختم کرنے کے لیے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔
اس کی سب سے بڑی وجہ یہاں رہنے والے لوگوں کی انائیں ہیں جو خود کو ہر کام میں مداخلت کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ اور ٹین ایجرز کو ان کی مرضی یا رائے کے بغیر فیصلہ ماننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بلکہ اگر کوئی انکار کرے یا کچھ کہنے کی ہمت کرے تو اس کو گستاخ کہہ کر چپ کروا دیا جاتا ہے۔ جس کے وہ احساس کمتری کا شکار ہوجاتا ہے اور اس کی شخصیت میں نکھار پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ یہاں تک دیکھنے میں آیا ہے ان کو مارا پیٹا جاتا ہے اور طاقت کے زور پر اپنے فیصلے منوانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ حالانکہ بچوں کو پیار سے سمجھایا جاتا ہے مار پیٹ سے بچہ مزید بگڑ جاتا ہے۔
ان سب عوامل کی وجہ سے بچے کے ذہن پر دباؤ اور کشمکش کا عالم ہوتا ہے۔ اور ان سب حالات میں بچے کی تربیت کیسے کی جائے یہ بہت اہم سوال ہے۔

اس کے لیے میں کچھ گزارشات پیش کروں گا:

1. سب سے پہلے آپ گھر اور باہر کے حالات و واقعات پر ان کی رائے جاننے کی کوشش کریں۔ جس سے آپ کو ان کی ذہنی پختگی کا اندازہ ہوجائے گا۔ پھر اس کے مطابق آپ فیصلہ کرسکتے ہیں۔

2.پڑھائی کے متعلق آپ ان کو آزادی دیں۔ ان پر اپنا فیصلہ ہرگز مسلط نہ کریں۔ بلکہ ان کو ان کی مرضی اور شوق کے مطابق چناؤ کا اختیار دیں۔ اس سے ان کے خوداعتمادی اور حوصلہ افزائی پیدا ہوگی۔

3. انہیں گھر سے باہر جانے کا بھی موقع دیں۔ اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ والدین بچوں کو گھر تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ جس سے ان کے اندر خوداعتمادی کی کمی پیدا ہوجاتی ہے۔ باہر کسی پارک یا تفریحی مقام پر جانے سے ان کے ذہنی نشوونما میں مثبت تبدیلی آتی ہے۔

4.ان کی محفل پر نظر رکھیں کہ وہ کس طرح کے دوستوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ اگر وہ برے دوستوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں تو ان کو پیار سے منع کریں اور اگر اچھے دوستوں کے ساتھ تو ان کی حوصلہ افزائی کریں۔

5. اسکول یا کالج سے ان کے بارے میں وقتاً فوقتاً رپورٹ لیتے رہیں۔ ان کی حاضری اور دیگر سرگرمیوں پر نظر رکھیں اگر کوئی کمی یا کوتاہی نظر آئے تو اسے حل کرنے کی کوشش کریں۔

6.انہیں نماز اور دینی کاموں کا علم سکھائیں۔ پانچ وقت کی نماز پڑھنے کا کہیں۔ قرآن پاک کی تلاوت کا کہیں۔ باقی دینی احکام کا بھی علم سکھائیں۔ اگر بچہ لاپرواہی کرتا ہے تو پیار سے سمجھائیں۔

7.جتنا ہوسکے موبائل کم سے کم استعمال کرنے دیں۔ بلکہ وہی وقت ہم نصابی سرگرمیوں میں صرف کرنے کا کہیں۔ اس طرح ان کھ اندر کام کی دلچسپی اور شوق پیدا ہوگا۔ موبائل کا استعمال بالکل ممنوع بھی نہیں ہونا چاہیئے ایک حد کے اندر استعمال ہونا چاہیئے۔

8.ان کے سامنے دوسروں سے ادب سے بات کریں اور ان کو بھی بڑوں کا ادب کرنے کی تلقین کریں۔ اور ہر اچھے کام میں پہل کرنے کا کہیں۔ کیونکہ جو عادت اس عمر میں بن جاتی ہے پھر وہ پختہ ہوجاتی ہے۔

9. گھر میں ان کے سامنے لڑائی جھگڑے سے پرہیز کریں۔ کیونکہ جیسا آپ کرتے ہیں بچے بھی ویسا ہی سیکھتے ہیں۔ لٰہذا گھر کے ماحول کو بچوں کے سامنے پرسکون رکھیں۔

10. نصاب کی کتب کے علاوہ دوسری اسلامی، تاریخی اور معلوماتی کتابیں پڑھنے کا بھی کہیں۔ اس سے ان کے مطالعہ میں اضافہ ہوگا اور ان کی شخصیت میں بہتری آئے گی اور وہ میچور ہوں گے۔

اس ضمن میں سب سے اہم کردار والدین اور اساتذہ کا ہے۔ والدین کو چاہیئے کہ وہ بچے پر بلاوجہ سختی نہ کریں اور ان کی پسند ناپسند کا خیال رکھیں۔ اور اساتذہ ان کی اچھی خوبیوں کا ان کو بتائیں۔ جس سے ہمارے بچوں کا مورال بلند ہوگا اور ایک صحتمند اور قابل معاشرے کا قیام عمل میں آئے گا۔
والسلام

‎@Rumi_PK

Shares: