آج سے ٹھیک 80 برس قبل 75 افراد اور 74 روپے اور 14 آنے سے شروع ہونے والی جماعت اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے قرآن کے الفاظ میں
 کَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطۡـَٔہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰی عَلٰی سُوۡقِہٖ یُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الۡکُفَّارَ ؕ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿سورة فتح آیت۲۹﴾
گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی ، پھر اس کو تقویت دی، پھر وہ گدرائی ،پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی۔ کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں ۔ اس گروہ کے لوگ جو ایمان لاۓ ہیں اور جنہوں نیک عمل کیے ہیں اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے ۔ ع
آج وہ جماعت ایک عالمی تحریک کی حیثیت اختیار کر چکی ہے، جس نے اس دنیا کے رہنے والوں کو زندگی کا مقصد بتایا، امت مسلمہ کے ایک فرد کی حیثیت سے ان ذمہ داریوں سے آگاہ کیا جو ان پر عائد ہوتی ہیں، اس جماعت نے ایسے پاک باز اور پاک سیرت انسان تیار کئے جو اسی معاشرے کے رہنے والے افراد تھے، اسی معاشرے میں ان کا روزگار تھا، اسی معاشرے میں ان کے روزوشب گذرتے تھے لیکن ان کی زندگیاں اس بات کی علامت تھیں کہ یہ اس معاشرے کے افراد نہیں بلکہ یہ کسی اور ہی معاشرے کے افراد ہیں، اس کی مثال آپ ایسے سمجھ سکتے ہیں کہ آپ نے چنبیلی کا پھول دیکھا ہوگا، یہ پھول کس ماحول میں کھلتا ہے؟ کہاں سے وہ غذا لے رہا ہوتا ہے، کس ماحول میں وہ سانس لے رہا ہوتا ہے، کس ماحول سے وہ پانی حاصل کر رہا ہوتا ہے؟ یعنی ایک گندے جوہڑ میں کھلنے والا یہ پھول، اسی جوہڑ سے اپنی غذا، پانی اور آکسیجن حاصل کرنے والا یہ پھول اُن تمام آلائشوں اُن تمام گندگیوں اور اس تعفن زدہ ماحول سے پاک ایک خوبصورت پھول ہوتا ہے جس پر اس ماحول کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ الحمد للہ جماعت اسلامی نے جو افراد تیار کیے وہ بھی اسی کردار کے حامل افراد ہیں۔
آج اس بات پر ہم صرف اللہ کے شکر گذار ہیں کہ جس نے ہمیں ایسی صالح اجتماعیت عطا کی جس نے ہمارے بچپن، ہمارے لڑکپن، ہماری جوانی کی حفاظت کی اگر یہ جماعت نہ ہوتی تو ہم جیسے ہزاروں افراد معاشرے میں موجود برائیوں میں اضافے کا سبب بن رہے ہوتے، اس تحریک نے ہمیں سینما سے بچا کر مسجد  کی طرف ہمارا رخ پھیرا۔مجھے آج بھی وہ گھر، وہ بیٹھک اور وہ افراد یاد ہیں جہاں مجھے میرے مرحوم والد مجھے اسلامی جمعیت طلبہ کے پہلے پروگرام میں لے کر گئے تھے۔
ایک ہی سمت میں  کب تک کوئی چل سکتا ہے
ہاں کسی نے مجھے رستہ نہ بدلتے دیکھا
مجھے یاد آرہا ہے کہ میں جب پہلی مرتبہ اعتکاف پر بیٹھا تو ہمارے امام مسجد مولانا اسمعاعیل حمادؔ صاحب نے ہمارے رشتہ میں دادا لگتے تھے ان سے کہا کہ یہ نوجوان اب آپ میں سے نہیں رہا ان کا اشارہ *راجبپوت* برادری کی طرف تھا اس لیے کہ ہماری قوم کے نوجوانوں کے شب و روز تو کسی اور طرح کی رنگ و نور کی محافل میں گذرا کرتے تھے۔
خیر بات کہیں اورنکل گئی، مجھے یاد آتا ہے کہ میری زبان بچپن میں توتلی ہوتی تھی، اور میں مرغے کو مردا کہا کرتا تھا، وقت کے ساتھ ساتھ وہ توتلا پن دور ہوا اور ایک ہچکچاہٹ جو بولنے میں تھی اسے دور کرنے میں جہاں میرے والد محترم رانا عبدالمجید خان ای ڈی او لٹریسی (ریٹائرڈ) ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی کاوشوں مسلسل محنت اور حوصلہ افزائی کا دخل ہے وہیں اس تحریک نے بھی ہماری تقریری صلاحیتوں کو نکھارنے میں ایک مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ ہمارے والد محترم کو ادب سے بہت لگاؤ تھا ان کی اپنی ذاتی لائبریری میں تفسیر، حدیث، سیرت، افسانے، شاعری غرض تمام قسم کا ادب موجود تھا۔ انہیں فارسی زبان پر بہت عبور حاصل تھا، حافظ، سعدی اور اقبال کے فارسی اشعار اور اسی طرح اردو اشعار بلا مبالغہ انہیں ہزاروں کی تعداد میں یاد تھے۔ جب وہ خود تقریر کرتے تھے تو ان کا انداز انتہائی  ادبی اور جگہ جگہ موقع اور محل کے لحاظ سے بہترین اشعار کے انتخاب کا مجموعہ ہوتی تھی۔ مجھے یاد آرہا ہے کہ بچپن میں جب اسکول میں پہلی مرتبہ تقریری مقابلے میں حصہ لیا تھا میری تقریرکا موضوع *سیرت النبیؐ* تھا۔  چالیس پنتالیس سال گذرنے کے باوجود  آج بھی اس تقریر کے اشعار اور چیدہ چیدہ الفاظ مجھے یا دہیں۔پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ہم مختلف قسم کے مظاہروں سے کالج اور اسکول کے طلبہ سے کسی سڑک  پر ، کسی کھلے میدان میں، کسی تھڑے پر کھڑے ہوکر، کسی پولیس کے دفتر کے سامنے تقریر کرتے نظر آتے یہ سب نکھار تحریک اسلامی کا عطا کردہ ہے۔
1995 میں زمانہ طالب علمی سے فارغ ہوا تو غم روزگا کے چکروں میں پڑتے ہوئے جماعت اسلامی کی رکنیت  کے لیے درخواست دی، مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں نے اس رکنیت فارم پر اپنے جذبات کا اظہار کچھ اس طرح کیا تھا
کچھ سمجھ کر ہی ہوا ہوں موج دریا کا حریف
ورنہ میں بھی جانتا تھا عافیت ساحل میں ہے

Shares: