دور جدید اور مسلمان!! تحریر: ناصرہ فیصل

0
76

انسانی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو بہت سے شاہانہ ادوار گزرے ہیں جس میں مسلمانوں نے اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے ہیں اور ہزاروں سالوں تک اس دنیا پر حکمرانی کی اور اپنی دور حکومت میں دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیا
اور لوگوں کو ایسے معاشرتی حقوق و اصول دیے جو آج تک دنیا میں قائم ہیں اور ان اصولوں میں رد و دبدل کرکے نظام دنیا کو اب تک چلایا جارہا ہے ۔۔ یہ اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کے ایسے سنہرے باب ہیں جو تاریخ میں سنہرے ابواب کی طرح رقم ہیں۔۔آنے والے ادوار نے ان سے سیکھ کر اپنے آپ کو بہتر کیا،، مغربی اقوام نے انہی کے اصولوں پر عمل کرنے کے اپنے لیۓ بہترین سسٹم بنائے اور آج وہ پوری دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ اسکے برعکس مسلم اُمہ اور اسکے حکمران اپنے سنہری اصولوں کو بھول کر عیش و عشرت کی دنیا میں گم ہو گئے اور اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ اب مسلم اُمہ میں کوئی ایسا حکمران نہیں جو خود کو صحیح معنوں میں ایک لیڈر کہہ سکے اور اس اتنی برّی امت کی رہنمائی کر سکے۔
حضرت عمر بائیس لاکھ مربع میل کے فاتح تھے انہوں نے اپنے دور میں بیت المال قائم کیا اور عدالتی نظام بنایا اور ان میں قاضی تعینات کیے اور عدالتی نظام آج تک چل رہا ہے اور اس میں کچھ ردوبدل کرکے سب ممالک میں قائم ہے۔ انہوں نے جو اصول ایک عظیم سلطنت کو چلانے کے وضع کیے اُن پر آج بھی ترقی یافتہ اقوام عمل کر کے خود کو منوا چکی ہیں۔
عظیم الشان ادوار گزارنے والے مسلمان آج پستی کا شکار ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ اپنے اسلاف کی پیروی کو جھٹلانا اللہ اور اس کے پیارے نبی حضرت محمدصلی علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے دوری ہے۔ ہم آج بھی اگر انکی تعلیمات پر پوری طرح سے عمل کرنا شروع کردیں تو کوئی مشکل نہیں کے ہم آج بھی پوری دنیا پر حکمرانی کر سکیں۔۔ لیکن ہم اپنی زمہ داریاں بھی دوسروں پر ڈالنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہم یہ تو چاہتے ہیں کے سب ایک دن ایک سال میں ٹھیک ہو جائے لیکن ہم خود کو ایک لمحے کے لیے بھی بدلنے کو تیار نہیں ہیں۔ یقین مانیں جس دن ہم خود کو بدلنے میں کامیاب ہو گئے وہی دن آغاز ہوگا ہماری کامیابی و کامرانی کا۔۔ انّ شاء اللہ
آج کے دور کا مسلمان بربادی کے دہانے پر ہے اور آپس میں منتشر اور فرقوں میں بٹا ہوا ہے جس کی ایک بڑی اور اہم وجہ آپس میں بنے ہوئے فرقے اور ایک دوسرے پر خود کو اعلی سمجھنا ہے۔ جبکہ اسلام میں اس چیز کی سختی سے ممانعت ہے۔ بڑائی کا معیار تو تقویٰ اور پرہیز گاری ہے اسلام میں۔۔ اسکے علاوہ کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔
اسلام ہمیں ایک مکمل ضابطہ حیات دیتا ہے مگر ہم اس سے کوسوں دور مغربی تہذیب میں دھنس کر رہ گئے ہیں اور اپنے طورطریقے چھوڑ کر مغربی تہذیب کے گرویدہ ہوکر رہ گئے ہیں جوکہ ہماری تباہی اور آنے والی نسلوں کی بربادی کا سبب بن رہی ہیں۔
ہماری صبح کا آغاز ہم رب کو یاد کرنے کی بجائے ڈسکو سے کرتے ہیں اور سارا دن غفلت میں گزار دیتے ہیں۔ سارا دن پیسے کمانے کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں لیکن اپنی آنے والی نسلوں کے بارے میں کچھ نہیں سوچتے۔۔
مغرب کا غلبہ اب ہمارے ذہنوں میں سوار ہوچکا ہے اور ہم مغربی غلام بن کر رہ گئے ہیں۔
اس پر علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے

””نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب مغرب کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے
ہر ملک میں مظلوم کا یورپ ہے خریدار””
ان اشعار میں اقبال نے دریا کو کوزے میں بند کرکے رکھ دیا ہے مگر یہ بات اب ہماری سمجھ سے بالاتر ہوچکی ہے کیونکہ ہم اس برے طریقے سے اس دلدل میں پھنس چکے ہیں کہ اب اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ڈھونڈھ پا رہے۔
اس سے نکلنے کا واحد حل یہی ہے کہ ہمیں خود کو پہچاننا ہوگا ہم کیا تھے کیا بن گئے ہیں ہمارا مقصد کیا ہے اور ہم کس مقصد پر لگ گئے ہیں اگر یہ سب اسطرح چلتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب ہم اپنا سب کچھ کھو چکے ہوں گے اور اس وقت سوائے پچھتاوے کے ہمارے پاس کچھ نہیں ہوگا۔۔
لہذا ہمیں اس دلدل سے نکلنے کے لیے ایک ہونا پڑے گا اور اپنے مقصد کو پہچان کر اس پر عمل کرنا ہوگا ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہم تباہی کے دہانے پر کھڑے اپنے ماضی پر پچھتا رہے ہوں گے۔۔
آئیے مل کر عہد کریں کے ہم خود کو بدلنے کی حتی المکان کوشش کریں گے تاکہ ہم ایک نئے سنہری دور کا آغاز کر سکیں۔۔آمین۔

⁦‎@NiniYmz⁩

Leave a reply