حکومتی عدم توجہ کا شکار آن لائن تعلیم میں درپیش طلبہ کے مسائل ،ازقلم: ملک رمضان اسراء

یقینا آن لائن ذریعہ تعلیم پاکستان جیسے ملک میں کسی بھی طالب علم کی ترجیح نہیں کیونکہ پاکستان ڈیجیٹل ورلڈ کی رینکنگ میں عالمی دنیا سے بہت پیچھے ہے لیکن موجودہ حالات کے اعتبار سے آن لائن ذریعہ تعلیم وقت کی اشد ضرورت ہے مگر بدقسمتی یہ ہے کہ اس کو حکومتی سطح پر بھی کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی جو انتہائی افسوس ناک امر ہے۔ آپ وزیر تعلیم کے بیانات اور عملی کارکردگی دیکھ لیں ان میں کھلا تضاد نظر آتا ہے۔ موصوف خود تو تعلیمی اداروں بارے کورونا وبا کے ڈر سے آن لائن میٹنگز کرتے ہیں لیکن دوسروں کے بچوں کیلئے کورونا وبا میں بھی ان کیمپس تعلیم پر بضد ہوتے ہیں حتکہ انہیں وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے طلبہ اور اساتذہ کے مسائل کو مدنظر رکھ کر اسکا کوئی حل تلاش کرنا چاہئے اور سب سے اہم بات یہ کہ جدید ترین ڈیجیٹل سسٹم متعارف کرانا چاہیے تاکہ تعلیمی میدان میں بہتری لائی جاسکے۔

اس کے علاوہ اگر میں ذاتی تجربہ شیئر کروں تو وزارت تعلیم کی طرف سے ہر روز بدلتے فیصلوں سے مجھے ہزاروں روپے کا نقصان ہوا کیوں کہ کورونا کی تیسری لہر میں انتظامیہ نے نئے داخلوں کے وقت عین موقع پر جامعات کھول دی تھیں اور کوئی محض دس دن حاضری کرنے کے بعد اچانک کہا گیا کرونا کیسز بڑھنے کی وجہ سے جامعات بند کرنا پڑ رہی ہیں اور یہ اقدام کرنا حکومت کی مجبوری بھی تھی جسکی اصل وجہ یہ کہ سب سے پہلے کسی بھی چیز سے بڑھ کر اگر کوئی چیز اہم ہے تو وہ انسانی جان کا تحفظ ہے لیکن دانستہ کوتاہی یہ ہوئی کہ علم ہونے کے باوجود کے کورونا زور پر ہے مگر پھر بھی سارے تعلیمی ادارے کھول دیئے اور یوں ہم نے کئی قیمتی جانیں گنوا دیں۔

اب جب دوبارہ سارا تعلیمی نظام مکمل آن لائن ہوگیا تو مسئلہ یہ تھا کہ جامعات کے اندر کے ہاسٹل، اور ٹرانسپورٹ کا کرایہ تو پہلے سے ہر نئے سمسٹر فیس کے ساتھ ہی جمع کرانا ضروری ہوتا ہے جو آن لائن تعلیم کے باوجود بھی طالب علموں کو واپس نہیں کیا جاتا اور رہی بات ہم جیسے طالب علموں کی جو پرائویٹ ہاسٹلز میں رہتے ہیں تو ہمیں ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو ایڈوانس میں کرایہ ادا کرنا ہوتا ہے اور میں ادا کرچکا تھا کیونکہ مجھے معلوم نہ تھا کہ صرف دس دن کے لیے یونیورسٹی کھل رہی ورنہ میں تیس دن کا کرایہ ادا ہی نہ کرتا لہذا مجھے مجبورا ہاسٹل چھوڑنے کے بجائے اپنا کمرہ ریزرو پر رکھنا پڑا اور کھانے کے پیسے چھوڑ کر باقی مکمل کرایہ ادا کرتا رہا۔ ریزرو پر کمرہ رکھنا میری مجبوری اس لیئے بھی تھا کہ حکومتی فیصلوں میں تضاد تھا کبھی وہ جامعات کھولنے کی کوئی تاریخ دیتے تو کبھی کوئی لہذا نااہل انتظامیہ کا چند ہفتوں کا فیصلہ مہینوں میں بدل گیا اور یوں مجھے خوامخووہ پورے ایک سمسٹر میں ہزاروں روپے کا نقصان اٹھانا پڑگیا۔

اور یہ صرف میرے ساتھ نہیں ہوا بلکہ میرے جیسے بہت ساروں نے یہ نقصان اٹھایا۔ دوردراز کے طلبہ کو مجبورا بھی کمرہ ریزرو کرنا پڑتا ہے کیونکہ ہمیں ڈر ہوتا ہے کہ صبح اٹھتے ہی اگلے روز حکومت جامعات کھولنے کا اعلان کردے تو پھر مجھ جیسے طالب علم کیلئے کم وقت میں بروقت اپنی مطابقت کا ہاسٹل ڈھونڈنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ اور اسی جھنجٹ سے بچنے کیلئے اکثر طالب علم کمرہ ریزرو پر رکھ لیتے ہیں لہذا وزیر تعلیم شفقت محمود سے درخواست ہے کہ آئیندہ جو بھی لائحہ عمل تیار کریں وہ جامع اور واضح ہو اور اس میں تضاد نہ ہو کیونکہ اس کنفیوژن کی وجہ سے ہمارے ہزاروں روپے ضائع ہوجاتے ہیں۔ اب فرض کریں اگر حکومت ایسے کنفیوژڈ فیصلے نہ کرتی تو کیا مجھ جیسے غریب خاندان کے طلبہ کا خواہ مخواہ نقصان ہوتا؟ ہرگز نہ ہوتا کیونکہ ہم ذہنی طور پر مکمل تیار ہوتے اور ہزاروں روپے کے نقصان سے بچ جاتے۔

ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے حقوق ادا کرے لیکن پاکستان میں ریاستی ادارے مجھے اپنے باشندوں کے حقوق پورے کرنے میں مکمل ناکام نظر آتے ہیں آپ فاٹا، بلوچستان، گلگت بلتستان اور کشمیر کے پسماندہ علاقوں کے بارے زرا سوچیں جہاں نہ بجلی ہے اور نہ ہی موبائل سروس اور انٹرنیٹ کی سہولیات کیا طلبہ اور شہریوں کے ان بنیادی حقوق کو فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری نہیں؟ اسی طرح ریاست طاقتور طبقہ کو تو مختلف اشیاء پر سبسڈی دیتی ہے لیکن کیا طلبہ کیلئے سمارٹ فونز، لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ پر عائد ٹکسز کو معاف نہیں کیا جا سکتا؟ اور غریب طلبہ کیلئے جن کے والدین محنت مزدوری کرتے ہیں یا جنکی آمدنی بیس ہزار سے کم ہے کو لیپ ٹاپ، سمارٹ فونز اور انٹرنیٹ کی سہولیات مفت فراہم نہیں کرنی چاہئے؟

Malik Ramzan Isra is an Islamabad based Pakistani journalist and writer. He is in journalism since 2013 and survived two deadly attacks over his journalistic work. He has worked in different National and International outlets like independenturdu.com, dw.com/urdu, dunyanews.tv & express.pk and currently writing for baaghitv.com He tweets at @MalikRamzanIsra

Comments are closed.