(گزشتہ کیساتھ پیوستہ)
ضروری نہیں ہم جس سے محبت کرے اس سے ہماری شادی بھی ہو جائے جائے مگر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ جس سے ہماری شادی ہو گئی اس سے ہمیں محبت بھی ہو جائے محبت کے لیے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں اور کچھ خاص انسان بھی میں جانتی تھی کہ عادی کسی لالچ میں مجھ سے محبت نہیں کرتا کتا مگر کسی بھی بات پہ سہی
مجھے تو اس کو ذلیل ہی کرنا تھا تھا
اس کے بعد جب مجھے موقع ملا میں نے اسے خوب بےعزت کیا
میں نے زندگی میں کوئی دکھ نہیں دیکھا تھا
تھا شاید اس لیے مجھے کسی کے دکھ کا احساس بھی نہیں تھا
میں بہت بے حس تھی
دولت کی فراوانی نے مجھ میں تکبر، انا اور نخرہ حد سے زیادہ تھا
پھر ایک دن میں نے اپنے دوستوں سے کہہ کر اسے یونی میں بے عزت کرایا
میری دوست اس کی محبت اور غربت پہ طنز کرتی رہی عادی نے سب ہمت سے سنا اور فقط اتنا کہا تھا کہ کزن۔۔۔۔۔۔!!!
کسی کی محبت کا مذاق نہیں اڑاتے اگلا بندہ اپنی محبت میں واقعہ سچا اور مخلص ہے تو محبت کی بد دعا لگ جاتی ہے مذاق اڑانے والوں کا ایک دن اپنا مذاق بن سکتا
اور ہم نے اس بات پر بھی اس کا خوب مذاق اڑایا تھا میرا یونی میں آخری سال تھا ابو کو میرے لیے ایک لڑکا پسند آگیا
اعلی تعلیم یافتہ اور امیر ترین گھرانا تھا ان کی بھی ہماری طرح فیکٹریاں اور دیگر کاروبار تھا
لڑکے والے مجھے دیکھنے آئے اور پسند کر گئے ہمارے گھر والوں کو بھی لڑکا پسند آگیا
منگنی کی تاریخ مقرر کردی گئی منگنی سے ایک دن پہلے ہی عادی بہانہ بنا کر اپنے گاؤں چلا گیا شاید اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ مجھے کسی اور کے نام ہوتے دیکھ سکتا وہ تین چار دن بعد واپس آیا
اس کے آتے ہی میں نے اسے اپنے منگیتر سعد کی تصویر دکھائے اور کہا کہ دیکھو ایسے لوگ ہوتے ہیں جن سے محبت کی جاتی ہے اور جو کسی قابل بھی ہوتے ہیں
یہ سب میں نے فقط اسے جلانے کے لئے کہا تھا اسے تڑپانے کا ایک نیا طریقہ میرے ہاتھ آ گیا تھا
میں جان بوجھ کر موبائل کان سے لگا کر عادی کے قریب سے گزرتی قدرے اونچی آواز میں نہیں جانو جان وغیرہ کہتی ہاں یار میں جانتی ہوں تو میرے لئے جان بھی دے سکتے ہو سعد مجھے جتاتا رہتا تھا کہ میں اسے بے حد پسند ہو اور وہ میرے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے
کمال کا حوصلہ تھا عادی کا بھی اس نے کبھی مجھ سے کوئی گلہ شکوہ نہیں کیا تھا بس کبھی کوئی شعر سنا دیتا یا پھر دھیمی سی مسکراہٹ لبوں پہ سجائے رکھتا پھر پتا نہیں کیا ہوا کہ میری ایک ٹانگ میں مستقل درد رہنے لگا بہت علاج کرایا ملک اچھے سے اچھے ڈاکٹر کو دکھایا مگر کسی کی بھی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا
ایک دن پڑوسن امی سے کہہ رہی تھی کہ نوش کو کسی عامل کے پاس لے جاؤ ہو سکتا ہے کسی نے کوئی جادو ٹونہ کرا دیا ہوگا پتہ کسی نے کالا جادو گرا دیا ہو پڑوسن کی امی سے کالا جادو کا سن کر میرے ذہن میں پہلا خیال یہی عادی کا آیا تھا اور ضرور اسی کمینے نے حسد میں ایسا کیا ہوگا مجھے اپنی طرف مائل کرنے کے لئے میرے دماغ نے کہا تھا
اور میں بنا سوچے سمجھے اس بات پر ایمان لے آئی تھی میری عادی سے نفرت میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہو گیا تھا اب میں اسے اپنے گھر سے ذلیل کرکے نکالنے کا بہانہ ڈھونڈ نے لگی میں اب اس کی شکل دیکھنے کی بھی روادار نہیں تھی
چھ سات ماہ کے بعد ٹانگ کا درد ختم ہو گیا تھا مگر بے تحاشہ پین کلر کھانے سے میرے گردے ناکارہ ہوگئے تھے ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ دونوں گردے ختم ہیں نکالنے پڑیں گے کہیں سے ایک گردے کا بندوبست کر لیجئے
گردہ خریدنا ہمارے لئے کوئی مشکل نہیں تھا مگر مجھے یقین تھا کہ میرا منگیتر سعد مجھے اپنا ایک گردہ دے گا وہ مجھ سے اکثر کہتا تھا کہ وہ میرے لئے جان دے سکتا ہے
ابو نے اپنے جاننے والوں سے بات کی کہ وہ جتنے پیسوں میں بھی ہو سکے کہیں سے ایک گردے کا انتظام کریں
سعد میرے لئے بہت پریشان تھا
مجھے یقین تھا کہ وہ کہے گا نوشی میری جان پریشان ہونے کی ضرورت نہیں
میں ابھی زندہ ہوں میں دوں گا اپنا گردہ تمھیں
مگر سعد نے ایسی کوئی بات نہیں کی سعد نے اتنا ضرور کہا تھا کہ پریشان نہیں ہونا
ہم کوشش کر رہے ہیں جلد ہی کوئی انتظام ہو جائے گا
پھر
میں نے ایک رات فون پر خود ہی اسے کہہ دیا کہ جانی اپنا ایک گردہ مجھے دے دو نا ۔۔۔؟؟؟
میں نے بڑے مان سے کہا تھا مجھے یقین تھا کہ سعد کہے گا کہ گردہ کیا چیز ہے تم جان بھی مانگو تو حاضر ہیں
سعد کچھ پل کے لیے چپ ہو گیا تھا
نوشی یار۔۔۔۔۔ میں تمہیں کیسے اپنا گردہ دے سکتا ہوں۔۔۔؟
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اس نے کہا
تو میرے مان اور بھروسے کا محل زمین بوس ہوگیا
دو دن بعد مجھے ہسپتال داخل کرلیا گیا گردے کا انتظام ہو گیا تھا
مجھے پتا تھا ابو کروڑوں خرچ کر کے بھی گردے کا انتظام کر لیتے اور انہوں نے لیا تھا
جب سے میری ٹانگ میں درد شروع ہوا تھا عادی بہت پریشان رہنے لگا تھا
مگر میں جانتی تھی وہ مجھے صرف دکھانے کے لئے پریشان ہونے کا ڈرامہ کرتا تھا تاکہ مجھے اس پہ شک نہ ہو ورنہ اندر سے تو یہ بہت خوش ہوگا
پھر میرے گردوں کے ناکارہ ہونے کا سن کر تو مزید پریشان ہو گیا تھا
شاید اس نے جو عمل مجھ سے کرایا تھا اسے اس کی اس حد تک توقع نہیں تھی۔۔۔؟
عادی میرے پاس آیا تھا اور اس نے مجھے تسلی دی تھی
کہ پریشان نہیں ہونا اللہ بہتر کرے گا
مجھے اس کی شکل سے بھی الجھن ہونے لگی تھیں میں نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا تھا وہ کچھ دیر بیٹھا رہا میں نے اسے دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا پھر وہ خود ہی اٹھ کر چلاگیا
آپریشن کامیاب ہوا تھا ہسپتال میں سعد اور اس کے گھر والے میرے عیادت کو آئے تھے
عادی تو پہلے دن سے ہی ہسپتال میں تھا وہ میرے لئے سفید پھول لے کر آیا تھا وہ جانتا تھا کہ مجھے سفید پھول بہت پسند ہے مگر میں نے اپنی نفرت کا اظہار کرنے کے لیے اس کے لائے پھولوں کو اسی کے سامنے توڑ کر پھینک دیا تھا
میں جس حال میں تھی اس کا ذمہ دار عادی ہی تھا اگرچہ میرے پاس اس کا ثبوت نہیں تھا مگر عادی کے سوا اور کوئی ایسا نہیں تھا جو مجھ سے انتقام لینا چاہتا ہوں میری ہر بےعزتی کو اس میسنے انسان نے ہنس کر اسی لئے سہا تھا کہ بعد میں وہ مجھے روتا ہوا دیکھے گا
عادی نے اپنے لائی بھولوں کا حشر دیکھ کر بس اتنا ہی کہا تھا
کزن یار غصہ صحت کے لیے اچھا نہیں ہوتا بلاوجہ کسی سے اتنی نفرت بھی نہ کرو کہ آپ کی نفرت سے کسی کے دل پر لگے زخم بعد میں آپ کے لئے ناسو بن جائے
عادی کہ الفاظ سے مجھے لگا جیسے وہ مجھے جاتا رہا ہوں کے مجھے اس حال تک لانے والا وہی ہے
میں ہسپتال سے گھر آئی تو عادی کی امی یعنی میری مما نے مجھ سے ملنے آئیں یہ دو تین بار پہلے بھی میری عیادت کو آ چکی تھیں
کچھ ہی دنوں میں میں مکمل ٹھیک ہو چکی تھی مجھے بس ایسے موقع کی تلاش تھی کہ عادی کو سب کی نظروں میں ذلیل کرکے اس گھر سے نکلو سکوں ۔ اس نے مجھے مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اور ایک دن مجھے اچانک ہی ایک شیطانی خیال سوجھا
ہمارے گھر کام کرنے ایک بیس بائیس سال کی لڑکی آتی تھی میں نے اسے 10ہزار دیا اور کہا میں تمہیں جو کچھ کہونگی وہی سب ابو کے پوچھنے پر ان کے سامنے دوہرا دینا
دس ہزار کی رقم دیکھ کر وہ فورا تیار ہو گئی تھی میں نے رات کو ابو کے کان بھر دی ہے کہ کام کرنے والی لڑکی نے کہا ہے کہ وہ یہاں کام نہیں کرے گی
جب تک عادی اس گھر میں ہے
کیونکہ وہ اسے پیسے کا لالچ دے کر اپنے ساتھ رات گزارنے کا کہتا ہے
دو تین بار تو اس نے دست درازی بھی کی ہے اگلے دن کام والے آئی تو میں اسے ابو کے پاس لے گئی اس نے بھی وہی کچھ کہا جو میں رات کو ابو کو بتا چکی تھی
ابو نے عادی سے پوچھنا بھی گوارا نہیں کیا اور اسے بلایا اور گھر سے نکل جانے کا حکم دے دیا
عادی ہکا بکا رہ گیا تھا تم نے ہم پر نیکی کی اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم جو مرضی کرتے پھرو
ابو نے عادی سے کہا میں نے کیا کیا ہے۔۔۔؟
عادی نے سوال کیا تھا
تم نے جو کچھ کیا وہ کوئی بے شرم اور بے غیرت ہی کر سکتا ہے اس سے پہلے کے ابو کچھ بولتے میں نے عادی کو جواب دیا تم بس اور اس گھر سے دفع ہو جاؤ میں نے بڑی بڑی اکڑسے اس سے کہا
عادی نے مزید کچھ نہ پوچھا اس نے اپنا بیگ اٹھایا اور چپ چاپ گھر سے نکل گیا
جانے سے پہلے وہ مجھے کہہ گیا تھا
نوشی۔۔۔۔!!! مجھے نہیں پتا تھا کہ تم اس حد تک چلے جاؤ گے کیونکہ میں نے اسے بتا دیا تھا کہ اس کو یہاں سے نکلوانے میں میرا ہاتھ ہے
میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا
عادی نے کہا
تو میں نے ہنس کر تکبر سے کہا تھا تم سے معافی کون مانگ رہا ہے۔۔۔۔؟
اس نے ایک نظر مجھے دیکھا اور چلا گیا
(جاری ہے)
@BismaMalik890