زندگی ایک ایسا قیمتی سرمایہ ہے تحریر :شفقت سجاد دشتی

0
65

 

تاجر و دکاندار اور سرمایہ دار ہمیشہ حساب وکتاب اور بازار کا اتار چڑھاؤ دیکھنے میں لگے رہتے ہیں، اگر ایسا نہ کریں تو دیوالیہ ہو جائیں اور ان کا کاروبار ٹھپ ہو جائے گا، ہماری زندگی ایک ایسا قیمتی سرمایہ ہے جو کہ ایک دکان کے سامان سے کہیں بڑھ کر قیمتی ہے، لہذا ضروری ہے کہ اچھے اور پسندیدہ طریقے سے زندگی گزارنے کا سلیقہ سکیھا جائے، اپنے وقت کو بہترین اور مفید ترین اور اولی ترین کاموں میں صرف کیا جائے،

اس سے پہلے کہ قیامت میں ہمارا حساب لیا جائے، ہم خود جائزہ لیں، محاسبہ کریں اور اپنے کاموں، فرصتوں اور اعمال کے نقاد بنیں۔

حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں: عباد اللہ زنواانفسکم من قبل ان تو زنوا و حاسبو ھا من قبل ان تحاسبوا: 

اللہ کے بندو، اپنے نفوس کا وزن خود کرو اس سے پہلے کہ تمہارے اعمال کا وزن کیا جائے اور اپنا محاسبہ خود کرو اس سے پہلے کہ تمہارا حساب لیا جائے۔

ہم اپنی عمر کے شب و روز اور فرصت کے لمحات کے سوالوں کے ذمہ دار اور جوابدہ ہیں کہ یہ سب بطور امانت ہمارے اختیار میں دیئے گئے ہیں اور ایک دن اس بارے میں کہ ہم نے کس طرح سے ان کو صرف کیا ہے ہم سے سوال کیا جائے گا، امام علی علیہ السلام نے فرمایا، من حاسب نفسہ ربح و من غفل عنہ خسر، جو اپنا خود محاسبہ کرے اس نے فائدہ حاصل کیا اور جو اپنے آپ سے غافل رہے گا اس نے نقصان اٹھایا۔

محاسبہ نفس۔ سبب بنتا ہے کہ خطاؤں، گناہوں و نامناسب اعمال اور گزشتہ غفلتوں اور اپنی زندگی کے خسارے کو ہم پہچان سکیں اور پھر انکی تلافی کی بھرپور کوشش کریں۔ زمانے کے شب وروز سے ہمارا سرد و گرم اور نفع و نقصان وابستہ ہے، عمر و جوانی ونشاط اور سلامتی کو وقت دیتے ہیں، لیکن ان کے بدلے میں کیا حاصل کرتے ہیں؟ فائدہ حاصل کرتے ہیں یا نقصان؟  نیکی و ہدایت میں اضافہ ہو رہا ہے یا گمراہی وتاریکی میں جا رہے ہیں؟  کمال کی طرف جا رہے ہیں یا پستی کی طرف؟ ہم اپنی عمر کا عظیم الشان سرمایہ کس چیز کی خاطر خرچ کر رہے ہیں؟

زندگی ایک زراعت کی مانند ہے فصلِ جب کٹے گی تب معلوم ہو گا کہ ہم نے کیا بویا اور کیا کاٹا ہے۔ ضروری ہے کہ زندگی کے خزانے میں کیا ہے؟ 

اس بارے میں امام علی علیہ السلام نے فرمایا، کماتزرع تحصد، جو بویا ہے وہی کاٹو گے۔

اگر محاسبہ کرنے کو اپنا معمول بنا لیں تو بعد والے نقصانات سے بچ سکتے ہیں آب شیریں کو صحرا میں پھینک کر ضائع نہیں کیا جاتا، اسی طرح زندگی کے قیمتی اوقات کو بیہودہ صرف کرنا ایسے ہی ہے جیسے آب شیریں کو صحرا میں ضائع کیا ہو، جو اپنی عمر کا حساب نہیں رکھتا وہ اپنے آپ کو ضائع کر دیتا ہے۔ جب عمل کرنے کا وقت گزر چکا ہوتا ہے، پھر وہ حسرت و غم سے کہتا ہے۔ بہت افسوس کہ جب عمر گزر چکی تب اس کا معنی میں سمجھا ہوں۔ میری عمر تین روز کی مانند،اس ترتیب سے گزر گئی۔

بچپن کھیل کود میں، جوانی اوباشی و عیاشی میں، پیری غفلت و حسرت میں۔

امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں اہل ذکر و معرفت انسانوں کی تعریف کرتے ہیں اور ان کے حالات کی خصوصیات اور ان کے کاموں کا محاسبہ کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں، ان کو دیکھو، اپنے دفتر و کتاب عمل کو کھول کر اس میں غور وفکر سے کام لیتے ہوئے، اپنی چھوٹی بڑی کوتاہیوں اور خامیوں پر نظر ڈال رہے ہیں۔ 

۔یہ محاسبہ ذات ہے۔

اور اگر ایسا نہ کیا تو پھر ان لوگوں میں شمار ہو گا کہ جن کی عمر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے، ایک حصہ امید کا اور دوسرا حسرت و یاس کا۔ پس ہر  چیز میں حساب کرنا لازم بھی ہے اور مفید بھی۔ 

 

@balouch_shafqat

Leave a reply