سال رواں بھی قوم نے یوم آزادی مکمل جوش و خروش سے منایا۔ اس سے قبل یوم پاکستان، یوم یکجہتی کشمیر، یوم استحصال کشمیر اور دیگر کئی قومی دن بھی اس جوش و خروش سے منائے گئے۔، آزادی کا یہ ولولہ نہایت خوش کن ہونے کے ساتھ ایسے سوال چھوڑ گیا کہ جو کئی سال سے پوچھے جارہے لیکن جواب یا تو ملتا نہیں اور اگر ملے تو تشنگی باقی رہتی ہے ،، ہر ذی شعور ذہن یہ ضرور یہ سوچتا ہے کہ کیونکر یہ قوم آزادی کی ساڑھے سات دہائیوں بعد بھی دنیا میں وہ مقام نہیں حاصل کرسکی کہ جسکا خواب اسکے بانیان دیکھتے تھے؟؟؟کیوں وطن عزیز کا شمار ترقی پذیر یا کچھ صورتوں میں پسماندہ علاقوں میں ہوتا ہے؟؟؟ ہر شعبہ ہائے زندگی میں ایسے ان گنت سوالات ہیں جو اذہان میں گونجتے ہیں
وطن عزیز میں ان مسائل کے لیے حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانا روایت بن گئی ہے۔ لیکن شاید حکومتوں اور حکمرانو ں کا شکوہ کرتے، انکی جانب انگلی اٹھاتے ہوئے ہم میں سے ہر ایک شہری یہ بھول جاتا ہے کہ باقی چار انگلیوں کا رخ اپنی ہی جانب ہے۔ آئیے کچھ دیر کے لیے خود احتسابی کرتے ہوئے ایمانداری ان سب خرابیوں اور مسائل میں اپنا حصہ تلاش کرتے ہیں۔ پہلی ذمہ داری جس سے عوام غفلت برتتے ہیں وہ انتخابات میں ووٹ دالنے کا عمل ہے۔ ہر قسم کے انتخابات میں ایماندار، تعلیم یافتہ، عوامی مسائل کا شعور رکھنے والے امیدواروں کی جگہ ذات برادری، ذاتی فائدے، تعلق داری اور تھانے کچہری میں مدد جیسے امور کو مد نظر رکھ کر امیدواروں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اور پھر بعد میں اسی نمائندے سے مسائل حل نہ کرنے، بدمعاشی اور ترقیاتی کام نہ کروانے جیسے شکوے سامنے آتے ہیں
یہاں ایک اور دلچسپ دلیل دی جاتی ہے کہ مسائل کی اصل ذمہ دار تو نوکر شاہی المعروف بیوروکریسی ہے جو سرکاری و حکومتی ڈھانچے کا مستقل حصہ ہے۔ انکے انتخاب میں تو عوام کا عمل دخل نہیں ہوتا ۔ حضور والا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ جب بھی ہمارا واسطہ کسی سرکاری ادارے یا اہلکار سے پڑتا ہے تو ہم کتنی بار اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ ریلوے ٹکٹ خریدنے سے لے کر ریلوے پھاٹک تک کہیں بھی انتظار ہمیں گوارہ نہیں ہوتا۔ لائن توڑ کرشناختی کارڈ، ڈومیسائل پاسپورٹ بنوانا، بل بھرنا، بغیر ٹیسٹ ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنا، ٹکٹ خریدنا گویا من حیث القوم ایک کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ ان کاموں کے لیے رشوت دینے والے، سفارش ڈلوانے والے اور کسی بڑے افسر کا حوالہ دینے والے بھی ہم ہی ہوتے ہیں
یہ لاقانونیت اور بے حسی صرف انفرادی سطح پر نہیں پائی جاتی بلکہ پیشے ذات برادری کی بنیاد پر اسکا تحفظ بھی کیا جاتا ہے۔ بار وکلا کی قانون شکنی کا محافظ بن جاتا ہے۔ کم تولنے، ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کے مرتکب تاجر کی مدد کے لیے انجمن آڑھتیان اور تاجران میدان میں آجاتے ہیں ۔ یہ سلسلہ ہر شعبے، ہر شہر غرضیکہ چہار سو پھیلا ہوا ہے
قصہ مختصر یہ کہ اگر ہمیں اس ملک کو ترقی یافتہ دیکھنا ہے تو ابتدا خود سے ہی کرنا ہوگی۔ ووٹ ایمانداری سے ڈالنا ہوگا۔ خود کو برائیوں سے دور کرنا ہوگا۔ رشوت کی بجائے قانون کی ماننا ہوگی۔ اس سرزمین کو اپنے گھر کی طرح صاف رکھنے میں اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ جس روز ہماری اکثریت اس پر عمل پیرا ہوگئی تو یقین مانیے حکمرانوں پر انگلی اٹھانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اور اگر ہمارا یہی وطیرہ رہا تو بقول شاعر
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

تحریر ؛ علی خان
@hidesidewithak

Shares: