مزید دیکھیں

مقبول

تو ہمارا کیا انجام ہوگا؟ تحریر : سید مصدق شاہ

فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے

وہ شمع کیا بجھے گی جسے روشن خدا کرے

ہم نے بزرگوں سے ایک واقعہ سن رکھا تھا کہ ایک ملک کے بادشاہ نے اپنی رعایا پروری، انصاف، عقلمندی اور ایمانداری سے اپنی رعایا کا دل جیت رکھا تھا مگر جب عالم پناہ بوڑھے ہو گئے تو بڑھاپے کے سبب ان کی صحت جواب دے گئی عوام بہت فکر مند رہنے لگے سارے ملک میں یہ بحث چھڑ گئی اس نیک رحمدل اور عقلمند بادشاہ کے بعد ان کا جانشین کون ہوگا؟

کیوں کہ ان کے بادشاہ کی کوئی اولاد نہ تھی بادشاہ حضور بھی اپنی بیماری کی صعوبتوں سے مایوس ہوچکے تھے انھوں نے اپنے لئے شاہی قبرستان میں قبر بھی کھدوا رکھی تھی ان کے وزراء اور امراء کی بے چینی دیکھ کر بادشاہ نے کافی غوروفکر کے بعد یہ اعلان کیا کہ ویسے ہماری سلطنت میں بہت سارے قابل ہستیاں ہیں جو اس منصب کے لئے موزوں ہیں اگر جانشین کا تقرر کا اعلان کرے تو بہت سارے امیدوار اپنی نامزدگی داخل کریں گے پھر ان میں کسی ایک کا انتخاب کرنا مشکل ہوجائے گا لہذا انتخاب کے مسئلہ کو حل کرنے کا ایک ہی راستہ ہے وہ یہ کہ امیدواروں پر ایک شرط مقرر کی جائے جو کوئی یہ شرط پوری کریگا اسے بادشاہ کا جانشین مقرر کر دیا جائے گا

بادشاہ کا یہ اعلان سننا تھا کہ عوام و خاص میں یہ تجسس پیدا ہو گیا کہ وہ کیا شرط ہے جسے پورا کرنے والے کو اس منصب کا حقدار بنایا جائے گا ایک دن بادشاہ نے اس شرط کا اعلان کرکے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔

 شرط یہ تھی کہ جو بھی شخص بادشاہ کے لیے کھودی گئی قبر میں ایک رات سو کر ائے گا اسے عالم پناہ اپنا جانشین مقرر کریں گے

اس شرط کو سن کر سبھی امیدواروں کے پسینے چھوٹ گئے سب پر سکتا طاری ہو گیا سبھی وزراء اور امراء پرچہ امیدواری داخل کرنے سے کترانے لگے 

جب یہ بادشاہ کے جانشین کے انتخاب اور بادشاہ کے شرط  والی خبر ایک نہایت ہی مفلس اور غریب شخص تک پہنچی تو وہ سوچنے لگا "ویسے میری ساری زندگی مفلسی میں بسر ہو گئے اب بادشاہ بننے کا ایک سنہری موقع ہاتھ آیا وہ کیوں نا میں اس سے فائدہ اٹھاؤ؟

 قبر میں سونے کے ایک رات ہی کی تو بات ہے”۔

 ویسے سب اس شرط سے اس لیے خوفزدہ تھے کہ جب قبر میں وہ جائیں گے تو دو فرشتے سوال جواب کے لئے حاضر ہونگے اور ان کی ساری زندگی کی نیکیوں اور گناہوں کا حساب لیا جائے گا اور انہوں نے دنیا میں دولت کو جمع کرنے کے لئے جائز و ناجائز طریقوں سے جو کچھ حلال اورحرام کی کمائی کی ہے اس کی پائی پائی کا ان کو جواب دینا پڑے گا

اس غریب نے سوچا کہ ” میں تو ایک مفلس غریب انسان ہوں مجھ سے تو کوئی سوال جواب کی نوبت نہیں آئے گی میرے پاس تو مخض ایک مریل گدھے کے سوا کچھ بھی نہیں تو فرشتے کیا پوچھ لیں گے؟

چلو ایک رات ہی کی تو بات ہے جیسے تیسے کہیں بھی گزر ہی جائے گی”

وہ اس امید پر حوصلہ پاکر بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا اور بادشاہ کی شرط پوری کرنے کا اپنا ارادہ ظاہر کیا تو بادشاہیوں کو حکم دیا کہ انہیں بادشاہ کے لیے کھودی گئی خالی قبر میں ایک رات سونے کے لئے لے جائیں

اور جب یہ بادشاہ سلامت کی شرط پوری کر لیں تو انہیں دربار میں حاضر کیا جائے تاکہ انہیں بادشاہ کا جانشین مقرر کیا جاسکے

سارا ملک اس غریب کی جرات پر حیران تھا الغرض اسے قبرستان لے جایا گیا اور بادشاہ کے لیے کھودی گئی اس خالی قبر میں سلا دیا اوپر تختے جوڑ دیے گئے اور ہوا کے لیے تھوڑی جگہ چھوڑ کر باقی قبر کو بند کر دیا گیا

جیسے ہی سپاہی اس غریب کو دفن کرکے قبر سے چالیس قدم دور نکلے قبر کا منظر ہی بدل گیا حسب دستور قبر میں دو فرشتے جرح کرنے کے لئے حاضر ہو گئے انہوں نے پہلے اس سے کچھ دینی و معلوماتی سوالات پوچھے وہ ان سب سوالات کے جوابات دینے میں کامیاب رہا تو فرشتے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے وہ انہیں ایسے گھورنے لگا کہ گویا پوچھ رہا ہے کہ اب کیا کر لو گے؟

میں نے تمہارے سارے سوالات کے جوابات تو دے دیے چلو اس اکیلے نکٹھو گدھے کے بارے میں کیا پوچھ لوگے؟ پوچھو پوچھو

جب فرشتوں نے اس سے اس کے گدھے کے متعلق سوالات کا آغاز کیا تو اس کی خلاف توقع اتنے سوال پوچھے گئے کہ وہ جواب دیتے دیتے تھک کر چور ہو گیا اس کی زندگی میں اب تک جو اس سے غلطی ہوئی ان میں سارے غلطیاں اس کے گدھے کے ساتھ اس کے برتاؤ اور اس کے ساتھ کی گئی بدسلوکی کو لے کر ہوئی تھی جب سے اس نے اس گدھے کو اپنے گھر لایا تب سے اب تک اس سے جو غلطیاں ہوئیں ان میں سے ایک ایک غلطی پر اسے سو سو کوڑے لگائے گئے اس طرح صبح تک ہزاروں کوڑے اس کو کھانے پڑے اس نے کبھی خواب و خیال میں بھی یہ سوچا نہیں تھا کہ مخض ایک گدھے کو رکھنے پر اسے اتنے سارے سوالات کے جوابات دینے پڑیں گے اور جن کی پاداش میں اسے اتنے سارے کوڑے لگائے جائیں گے جن سے وہ ادھ مرا ہوگیا وہ گدھے کو رکھنے اور اس کے ساتھ کی گئی غلطیوں اور ظلم کو جب فرشتوں نے ایک ایک کرکے گنایا تو اپنے لاپرواہیوں پر گڑگڑا کر توبہ کرنے لگا

صبح جب فرشتے واپس چلے گئے تو وہ سوچنے لگا کہ محض ایک گدھے کو رکھنے پر اس کی یہ نوبت ہوئی تو ملک کا بادشاہ بن جانے پر اس پر ساری رعایا کی ذمہ داری واجب ہوگی تب اسے فرشتے اور کتنے لاکھ سوال کرینگے؟

یہ سوچ کر وہ اتنا خوفزدہ ہوا کہ بادشاہت سے توبہ کرنے لگا حکم کے مطابق صبح بادشاہ کے سپاہی اسے قبر سے نکال کر دربار میں پیش کرنے کے لیے حاضر ہوئے تو قبر کو جیسے ہی انہوں نے کھولا وہ غریب قبر سے نکل کر جنگل کی طرف دوڑنے لگا

سب تعجب سے اسے دیکھنے لگے سپاہی اسے پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے دوڑ لگانے لگے تو وہ دوڑتے دوڑتے کہہ رہا تھا :”معاف کیجیے بادشاہت تو کیا مجھے اب یہ گدھے کا بچہ بھی نہیں چاہیے”

پیارے دوستوں ! 

اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر ہر انسان مرنے کے بعد قبر میں فرشتوں کے سوال جواب کے منظر کو یاد کرے گا تو زندگی کا ہر قدم پھونک پھونک کر رکھے گا اس کے سامنے بادشاہت بھی رکھ دیں تو اس سوال جواب اور قبر کے عذاب سے ڈر کر اسے بھی قبول نہیں کرے گا

تو پھر چھوٹے چھوٹے فائدے کے مقابل اتنا بڑا رسک کیوں مول لینا ہے؟

مگر آج قبر کے عذاب کو ہم بھلا بیٹھے ہیں قدم قدم پر ہم سے غلطیاں سرزد ہورہی ہیں تو ہمارا انجام کیا ہوگا؟

Tweeter id Handel @SyedmusaddiqSy4