تھائی لینڈ کی سیر  حصہ دوم تحریر محمد آصف شفیق

0
84

 

تھکے ہارے پیدل چلتے چلتے  گوگل میپ  کے سہارے ہوٹل تلاش کرنے میں کامیاب ہوگیا    ہوٹل کے کاونٹر پر موجود عملے نے مسکراتے چہروں سے استقبال کیا  اور ریزرویشن کی  تفاصیل  طلب کی ہم نے بھی سب کچھ موبائل میں ہی  رکھا ہوا تھا  آنے کا مقصد پوچھا  بتا یا بزنس ٹرپ  ہے تو  آو بھگت میں کچھ زیادہ اضافہ  محسوس کیا  ٹھنڈا پانی پیش کیا گیا اور ہال میں موجود  صوفے پر  بیٹھنے اور  کچھ  دیر انتظار کا کہا گیا 

یہا ں  پہنچ کر پتا  چلا کہ چیک آوٹ کا وقت   دو بجے ہے اور  کمرہ تیار کرکے واپس ہمیں  چار بجے   تک ملے  گا  یعنی  پورے  چار گھنٹے  ہال میں  صوفہ پر  بیٹھ کا  چپ چاپ انتظار کرنا ہوگا کہ کب  چار بجیں  اور کب  ہمیں  اپنا کمرہ ملے    ، موسم وہاں کا کافی  گرم  تھا  اور ہوا میں  نمی کی وجہ سے  اے سی ہال  سے  باہر نکلتے  ہی پسینے  چھوٹنے  لگتے  میں نے بھی   صوفہ پر ہی دراز ہونامناسب سمجھا اور خاموشی سے   اپنی  باری کا انتظار شروع کردیا

چار بجنے سے  پورے دس منٹ پہلے کمال  مہربانی کرتے ہوئے عملے نے   کارڈ تھما دیا اورہم نے  بھی لفٹ کی  راہ لی سارا ہی نظام ڈیجیٹل  تھا ہم  نے بھی پہلی بار کسی اچھے ہوٹل میں  رہائش  رکھی  تھی  لفٹ کھول لی مگر دو تین بار مختلف  بٹن  دبانے کے  بعد بھی جب  کچھ  نہ بنا تو چارو ناچار  باہر کھڑے  سیکیورٹی  گارڈ کو بتایا کہ بھائی  ساتویں  فلور پر کس طرح جائیں  اس نے  بھی کمال بے نیازی سے میرا کارڈ  لیا اور سینسر کے آگے کر کارڈ واپس کر کے  باہر نکل  گیا  تو ہمیں سمجھ آئی  کہ بھائی  آئندہ  یہ کرشماتی  کارڈ ہی کام  آئے گا ہر جگہ   ، ہوٹل کا محل وقوع بہت اچھا تھا   مین  بازار  صرف دس پندرہ منٹ میں  پیدل  جایا  جا سکتا تھا

  کراچی سے بینکاک مسلسل  پانچ گھنٹے کی نان سٹاپ فلائٹ اور موسم کی خرابی کی وجہ سے سارا راستہ بیلٹ باندھ  کر  گزارنے اور  ناہموار فلائٹ نے ٹھیک  ٹھاک  تھکا دیا تھا  اور اتر کر جیسے ہی  نیٹ کی سم لے لر موبائل اون کیا تو کراچی  اوبر پر سفر جو کہ تین  سو میں تھا اور اس ظالم نے تیرہ سو لے لئے  اس کی ای میل موصول ہونے سے تھکن  میں اضافہ ہو گیا  سب سے پہلے  گھر والوں کو خیریت سے پہنچنے  کی  خبر دی اور چینج کرکے  سونے کی تیاری  کی   ، ہر بندے میں اچھی  بری عادات  ہوتی ہیں  مجھ میں بھی ہیں  پینٹ شیلٹ کا استعمال صرف  دفتر اور سفر میں ہی کرتاہوں باقی اوقات میں  شلوار قمیض  پہننا ہی معمول وہاں پہنچ کر سب سے پہلے  قومی لباس پہنا اور  سو گئے  

اچھا خاصا سونے کے بعد بھوک نے تنگ کیا تو چاروناچار  اٹھے نہا کر فریش ہوکر تیاری  کرنا چاہی کپڑے استری کرنے کیلئے ہیلپ لائن پر کال کی تو  فوراً ہی استری مہیا کردی گئی  کپڑے استری کئے  اور  اپنے پرانے تجربے کی روشنی میں ہوٹل  کی لوکیشن  ویٹس ایپ پر شئر کر لی  تاکہ  بوقت ضرورت کام آسکے پہلے   بھی ایک دفعہ سیر کو نکلے تھے تو ہوٹل کا راستہ بھول گئے تو کافی دوڑ دھوپ  کرنی پڑی تھی تب سے اب تک جہاں بھی جاتے ہیں  فوراً وہاں   کی لوکیشن  شئر کر لیتے ہیں  میں نے تو یہ معمول بنا لیا ہے جہاں جائیں   احتیاطاً ایسا کرلیں   نئی  جگہ نیا ملک  اور اکثر زبان  سے  نابلد ہونا ایک  بہت بڑا مسعلہ  ہوتا ہے  بندہ نہ سمجھا سکے نہ سمجھ سکے  تو مصیبت  بن جاتی 

آجکل  سمارٹ فون نے نماز کے اوقات اور قبلہ  کے تعین میں  کافی آسانی کردی ہے ایسی کئی  ایپلیکیشنز موجود ہے جو  بہت مناسب ہیں ان حوالوں سے آپ دنیا میں جہاں کہیں بھی  جائیں آپکو نمازوں کے اقات  اور قبلہ کی   سمت کا سہی تعین   ہوجاتا ہے   ، نماز پڑھی اور کھانے کی تلاش میں  اندرون شہر پہنچے  مگرکافی تلاش  کے بعد فیصلہ کیا کہ  کے ایف سی سرچ کیا جائے اور مچھلی والا  برگر کھا کر گزارا کر لیا جائے تو اچھا  ہے   ، کچھ پیسے  میں   کراچی سے احتیاطاً تبدیل کروا کر تھائی کرنسی ساتھ لے گیا تھا مگر جس چیز نے وہاں سب  سے زیادہ  ساتھ دیا وہ  سعودیہ کا  کریڈٹ کارڈ  تھا جب چاہیں  جہاں  چاہیں استعمال کرلیں  جو بھائی  بہن  سیر کو جانا چاہیں میں انہیں  کہوں گا کہ سب کے پہلے کریڈٹ کارڈ  ضرور بنوائیں آجکل تو پاکستان میں بھی  کم و بیش سب  بینک یہ سہولت  دے  رہے  ہیں  مگر اس  حوالے سے فیصل بینک  بہت  اچھا ہے اس  کے ڈیبٹ کارڈ کو آ پ  کریڈٹ کارڈ کی طرح استعمال کر سکتے ہیں  جس کا تجرنہ میں نے بھی کیا  جب آخری ایام میں پیسے ختم ہوگئے تو میں نے  وہاں  سے  لوکل کرنسی  نکلوائی 

پہلا دن تھا  کھانا کھا کر واپس ہوٹل آکر پھر سونے کو ہی ترجیح  دی  اگلے  دن صبح صبح اٹھ  کر شہر کا دورہ شروع کیا  تو پتا چلا کہ کراچی ہی نہیں  بلکہ  یہاں پر بھی دکانیں  دیر سے  کھلتی ہیں ناشتہ کیلئے  ایک شامی  ہوٹل والا مل گیا عربی  جاننے کی وجہ سے کافی آسانی ہو گئی وہ بھی خوش ہوگیا کہ چلو کوئی تو عربی بولنے سمجھنے والا آیا    اس طرح ہم نے اپنی سیر کا آغاز کیا  یہاں کی ساحلی پٹی دیکھنے کے قابل ہے  بہترین  لوکیشنز بہترین انتظامات   اور کم خرچ میں آپ  بھر پور سیر کر سکتے ہیں سیر و تفریح کیلئے آنے والوں میں بھارت اور سعودیہ کے افراد زیادہ نظر آئے  باقیوں  کی نسبت

اب کچھ دن گزار کر ہم بھی راستوں سے مانوس ہوگئے تھے  اس لئے اپنی مرضی کاکھانا بھی مل رہا تھا اور مختلف مالز اور بڑی بڑی مارکیٹیں بھی گھوم  رہے تھے  بڑے بڑے  مالز اور مارکیٹوں کے لاسٹ فلور پر فوڑ سٹریٹ کا رواج یہاں  بھی ہے  کسی بھی بڑی مارکیٹ کے لاسٹ فلور پر جائیں تو فاسٹ فوڈ کے ساتھ ساتھ روائیتی  کھانا بھی آسانی سے مل  جاتا ہے  یہ سب  باتیں  کورونا کی  وبا سے  پہلے کی ہیں  اب کی صورتحال تو وہاں جانے والے ہی بتا پائیں  گے

کپڑے  کے تھری پیس سوٹس سستے اور معیاری مل جاتے ہیں ان پر انڈین سرداروں کی اجارہ داری ہے ہر  دکان میں آپ کو انڈین سردار ہی ملیں  گے بڑے ہنس مکھ اور تعاون کرنے والے آپ  اپنی مرضی اور پسند کا کپڑہ  سلیکٹ کرلیں  درزی دکانوں میں ہی موجود  ہیں  اسی وقت سلائی کر دیتے  ہیں ،  اس کام کو فائدہ مند پایا اور بلیوں کی خوراک کے حوالے سے بھی آپ وہاں سے پاکستان لاکر فروخت کر سکتے ہیں

بہر حال کچھ دن گزار کر واپسی کی راہ لی  سعودیہ سے صرف ایک ماہ کی چھٹی تھی اس دوران کئی اور کام بھی کرنے ہوتے  ہیں  واپسی ہوٹل والوں نے  صبح ہی آگاہ کر دیا کہ آپ جلد ہوٹل چھوڑ دیں  تو اچھاہے  ساتھ پوچھ بھی لیا کہ ٹیکسی منگوا دیں آپ کو   میں نے شکریہ ادا کیا کہ نہیں میں خود چلا جاوں  گا  ہوٹل سے میٹرو اسٹیشن  تک پیدل پہنچے میٹرو پینچ کر ائرپورٹ کا  ٹکٹ لیا اور اس طرح سستی میٹرو کا فائدہ اٹھاتے ہوئے     ائر پورٹ وقت سے پہلے پہنچ گئے  بورڈنگ کیلئے آٹو میٹک مشینیں  لگی ہیں ہم نے بھی اپنا بورڈنگ پاس اشو کیا اور  ویٹنگ لاونج  میں جانے سے  پہلے  پھر سے  امیگریشن والے آپ کے پاسپورٹ کو سٹیمپ بھی کرتے ہیں اور جو پیپر وہاں پہنچنے پر بھرا  تھا وہ بھی مانگتے ہیں  ہم نے وہ پیپر تعویز کی طرح سنبھال رکھا تھا چار پانچ تہیں کھول کر پیش کردیا  امیگریشن آفیسر نے مسکرا کر وصول کیا تو سمجھ گیا کہ میری طرح دوسرے پاکستانی بھی شاید ایسا ہی کرتے ہوں  ، جو بھی  بیرون ملک سیر کو کم خرچ میں جانا چاہے اس کیلئے  تھائی لینڈ اچھی جگہ ہے 

@mmasief

 

Leave a reply